کالم

ظفر اقبال صاحب کا لہجہ اور خاندانی خدمات

جون 26, 2020 3 min

ظفر اقبال صاحب کا لہجہ اور خاندانی خدمات

Reading Time: 3 minutes

٘پشاور کے ممتاز تخلیق کار اور شاعر برادرم اسحاق وردگ نے بزرگ شاعر اور کالم نگار ظفر اقبال کے اس کالم پر مبشر علی زیدی کے تبصرے کے حوالے سے سوال اٹھایا ہے جس کالم میں ظفر اقبال نے ’حسب معمول‘ بلاول بھٹو کے بارے انتہائی غلط زبان استعمال کی ہے۔ حسب معمول اس لئے لکھا کہ ظفر اقبال اور اس کے خاندان کی سیاسی ادبی اور صحافتی "خدمات ” پر نظر ڈالی جائے کہ اس حوالے سے ظفر اقبال صاحب اور اس کےخاندان نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار ھمیشہ کس شکل میں کیا. سب سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ میرا تعلق پیپلزپارٹی تو کیا بلکہ کسی بھی سیاسی جماعت سے عملی طور پر نہیں اور نہ ھی ان کا ترجمان ہوں تاھم جمہوری جدوجہد سے خود کو لمحہ بھر کےلئے بھی الگ نہیں کیا اور واضح طور پر ھمیشہ وھاں کھڑا نظر آیا جہاں جمہوریت کا ناتواں سا قافلہ اور امید کی ٹمٹماتے ہوئے چراغ دکھائی دیئے. اب آتے ہیں اصل بات کیطرف اردو کی دلآویز شاعری کے ساتھ ظفر اقبال صاحب نے جو کیا سو کیا لیکن سیاسی اور صحافتی حوالے سے ان کا بیٹا اور مشہور اینکر پرسن آفتاب اقبال اپنی "مخصوص پہچان ” بنا چکے ہیں .حال ہی میں "آپ نیوز ” میں آفتاب اقبال کے تاریخی گھپلے اور ملک ریاض جیسے گھاک بزنس مین کو ٹیکے لگوانے کی کہانی پوری دنیا کے سامنے ھے. اسی لئے کوئی اھم چینل اب آفتاب اقبال کو لینے پر بھی تیار نہیں. گو کہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ اسحاق وردگ کی ظفر اقبال سے خاصی نیاز مندی ھے اور ان کا طرز عمل اس سلسلے میں کافی جذباتی ھے لیکن حقائق تو یہ بھی ہیں کہ کیا یہی ظفر اقبال ڈکٹیٹر ایوب خان کے جلسوں میں اس وقت نظمیں نہیں پڑھ رھا تھا جب جمہوریت کو کچلا گیا تھا اور فیض سے جالب اور رسول بخش پلیجو سے ضمیر نیازی تک جیلیں کاٹ رھے تھے نوجوان حسن ناصر مارے جا چکے تھے اور قلندر مومند شاھی قلعے کی اذیتیں سہتے رہے جبکہ ملک بھر کے سیاستدان بدنام زمانہ قانون ایبڈو کے ذریعےنااھل اور فاطمہ جناح غددار بن چکی تھی. اسحاق وردگ نے ظفر اقبال کو پیپلزپارٹی کا بانی رکن کہا ھے تو عرض ھے کہ وردگ صاحب بلا شبہ اھم تخلیق کار ہیں لیکن چونکہ سیاسی تاریخ سے زیادہ علاقہ نہیں رکھتے اس لئے بتاتا چلوں کہ اسی ظفر اقبال نے انیس سو ستتر کے الیکشن میں اوکاڑہ سے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا تھا اور غالبا میاں یسن وٹو سے پچاس ھزار سے زائد ووٹ سے ھارکر سیاست سے توبہ تائب بھی ہو چکے تھے . پھر پگڑیاں اچھالنے (کسی آمر کی نہیں بلکہ صرف سیاستدانوں آور لکھاریوں کی) کی ایک خود ساختہ بازار سجائی جو کافی منافع بخش ثابت ہوئی اس لئے اپنے فرزند ارجمند آفتاب اقبال کو بھی اس جانب لے آیا جو کالم نویس بنتے ھی فوری طور پر اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب منظور وٹو کے مشیر بن بیٹھے تھے. حال ہی میں آفتاب اقبال نے اپنے ایک اور بھائی جنید اقبال کی مدد سے ملک ریاض کے چینل آپ نیوز میں بھی حسب توقع کامیاب واردات کر ڈالی اور جب گھپلا پکڑا گیا تو میٹنگ میں موجود ملک ریاض کی قریبی عزیز (خاتون ) پر بدوقیں تک تان لیں (یو ٹیوب پر تفصیلات موجود ہیں ) کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی اپنی لائف لگژری آور فارم ھاوس فراخ بنانے کے چکر میں گالیوں اور بد تہذیبی سے گریز کرے تو ان کے حق میں اچھا ھے کیونکہ کھلی ہوئی تاریخ کو مزید کھولنا نہیں چاہیے ۔ بر سبیل تذکرہ اظہر شاہ خاں جیدی مرحوم کا مصرع بھی کہاں یاد آیا۔
دو بھائی بھتہ لیتے ہیں اور ابا خیر سے ڈاکو ہے۔

ظفر اقبال آج سے تقریبا تیس سال پہلے عطاء الحق قاسمی صاحب سے بھی الجھ پڑے تھے اور حسب عادت نازیبا گفتگو بھی کی تھی لیکن پڑھنے والوں کو یاد ھے کہ قاسمی صاحب نے عین اسی اخبار میں جوابی کالم لکھے جہاں ظفر اقبال لکھتا رھا اور قاسمی صاحب کے وہ کالمز پڑھنے والوں کو یاد ہیں کہ صحیح معنوں میں کھینچنا آور رگڑنا ہوتا کیا ھے.
سو گزارش ھے کہ ظفر اقبال صاحب یقینا ھمارے سینیئر اور شعر و ادب کے ساتھ ساتھ صحافت کا بھی ایک اھم نام ہیں اس لئے ان کا احترام لازم ھے بلکہ میں تو ان کے گھر لاھور میں آن کی مہمان نوازی سے بھی لطف اندوز ہو چکا ہوں حتی کہ ظفر صاحب اپنے ایک کالم میں میری کافی تعریف بھی کر چکے ہیں جو بلا شبہ آن کی محبت ھے لیکن رزم حق و باطل میں صرف میرٹ پر بات ہو تی ھے ذاتی حوالے یا جذباتی نقطۂ نظر سے نہیں.
آمریتوں کی قصیدہ گوئی اور جمہوریتوں پر لعن طعن کا زمانہ تو ویسے بھی آخری سانسیں لے رہا ہے اس لئے مناسب یہی ہے کہ گفتگو اور طرز عمل کو بر وقت صحیح سمت میں استوار کیا جائے تو کم از کم تاریخ میں ایک طعنہ بننے کی بجائے سرخروئی کے کسی مقام پر تو ایستادہ ہوں گے اور اگر خدانخواستہ کوئی اپنے ذاتی مفادات کے لئے جمہوری اور سیاسی کرداروں کو ٹارگٹ کرتا اور کیچڑ اچھالتا رھے تو پھر ھم سے بھی یہ توقع نہ رکھے کہ ھم بے مقصد احترام کا دامن یوں ہی تھامے رہیں گے. اختلاف رائے یا آزادی اظہار ہونا چاہیے لیکن تہذیب اور شائستگی کے ساتھ طنز اور طعنوں کے ساتھ ہرگز نہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے