اہم خبریں کالم

نیا چیف جسٹس کون ہوگا اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

اکتوبر 19, 2024 4 min

نیا چیف جسٹس کون ہوگا اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

Reading Time: 4 minutes

پاکستان تحریک انصاف نے اگر آئینی ترمیم کے سامنے لائے گئے حکومتی ڈرافٹ کے حق میں ووٹ دیا تو پھر یہ اُس عدلیہ کی پیٹھ میں چھرا ہو گا جس نے پی ٹی آئی اور بنیادی طور پر عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی خاطر اپنے حلف کا پاس رکھتے ہوئے جرات مندانہ فیصلے دیے۔ اگر عمران خان جرات مند ججوں کا ساتھ چھوڑ جائیں گے تو پھر اُن کی سیاست دفن ہو جائے گی اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے والے ججز پوری عدلیہ پر حاوی ہوں گے۔
پینل کے ذریعے نئے چیف جسٹس کے انتخاب کی آئینی ترمیم میں تجویز سے کئی سنگین مسائل جُڑے ہیں۔

1- اسٹیبلسمنٹ اور حکمران اتحاد آئندہ چیف جسٹس منصور علی شاہ کو مخصوص نسشتوں کے کیس میں دیے گئے تاریخی اور جرآت مندانہ فیصلے کی سزا دینا چاہتے ہیں، اور پی ٹی آئی کا ایسی تجویز کو ووٹ دینا سیاسی بزدلی اور محسن کشی ہو گی۔

2- نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کو بلواسطہ اسٹیبلشمنٹ کے اور بلواسطہ سیاستدانوں کے ہاتھ میں دینا آئین کے بنیادی ڈھانچے کے اصول یعنی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔

3- پارلیمنٹ میں پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر خصوصی کمیٹی کی تشکیل کا واضح مطلب یہ ہے کہ چیف جسٹس کی تعیناتی اُن حکمران جماعتوں کے ہاتھ میں ہو گی جنکا اقتدار خود بھی اسٹیبلشمنٹ کی مرہونِ منت ہوتا ہے۔ ۴- سپریم کورٹ کے اوپر کے سینیئر ترین تین ججز چیف جسٹس بننے کی دوڑ میں نام نہاد آئینی بنچ یا دیگر کیسوں میں بھی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں اور خصوصی طور پر پارلیمانی کمیٹی کے اراکین یا ممکنہ اراکین سیاستدانوں کے کاروباری اور سیاسی مفادات کی چوکیداری کرنے پر مامور رہیں گے۔ ۵- خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں اگر پریکٹسنگ وکلا اراکین پارلیمنٹ رکن بنائے گئے تو ان وکلا کو کون روک سکے گا کہ یہ کروڑوں اور اربوں روپوں کے مقدمات میں اپنے موکلوں کے مفاد اور ہدایات کے مطابق نئے تین سینیئر ترین ججوں میں سے اپنے موکلان کے پسندیدہ جج کو چیف جسٹس بنانے کے لیے لابنگ اور ووٹنگ نہ کریں؟

پہلے سنا تھا وکیل کر لو، پھر سنا کہ جج ہی کر لو اور اب سنیں گے کہ پارلیمانی کمیٹی کا کوئی رکن پکڑ لو۔ ۶- کیا چیف جسٹس کے انتخاب کے لئیے بنائی گئی خصوصی کمیٹی کے اراکین کے انتخاب کے لیے کوئی تعلیمی یا قانونی قابلیت مقرر کی جائے گی یا پھر وہ ’جیالے، پٹواری یا یوتھیے‘ نئے چیف جسٹس کا انتخاب کریں گے جن کو پولیس پارلیمنٹ میں گھس کر اور گھسیٹ کر گرفتار کرتی ہے اور جن کا صادق نامی سپیکر ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ وہ استعفی دے یا نہ دے؟ علاقے کے تھانیدار لگوانے والے اب چیف جسٹس آف پاکستان بھی لگائیں گے؟

– ۷- خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی کاروائی کو ان کیمرہ (یعنی خفیہ) رکھنے کا مقصد کیا ہے کہ کمیٹی کے اراکین کی جہالت یا قابلیت دنیا پر آشکار نہ ہو جائے؟ کیوں نا کمیٹی میں تین ججوں کو باری باری بلا کر اراکین پارلیمنٹ سوال جواب کریں اور اس تمام کاروائی کو براہ راست عوام کو دکھایا جائے۔

۸- چیف جسٹس کی تعیناتی کا موجودہ آئینی معیار سینیارٹی اگر تبدیل کرنا مقصود ہے تو پھر دوسرا کون سا معیار مقرر کیا جا رہا ہے؟
اگر ایک سینیئر ترین جج کے خلاف کوئی کرپشن کا الزام تک نہیں اور اُس کی کارکردگی بھی بہترین ہے تو کیا اُسکے بطور جج ماضی کے فیصلے اُسکا جرم بن جاتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ آئینی ترمیم ۲۵ اکتوبر کے بعد نہیں لائی جا سکتی؟ ۹- تین سینئیر ترین ججوں کے پینل سے نئے چیف جسٹس کے انتخاب کی آئینی تجویز سے اُن ججوں کو بھی دانا ڈالا گیا ہے جنھوں نے شاید موجودہ سینیارٹی کے اصول کے باعث چیف جسٹس بنا ہی نہیں تھایا پھر دیر سے بننا تھا، اسکے لئیے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین سال رکھ دی گئی ہے کہ حکومت کے بوٹ پالش کرنے والے ہر جج کو چیف جسٹس بننے کا موقعہ ملے۔

۱۰- وکلا ججوں سے چیمبروں میں ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں، پارلیمانی کمیٹی کے وکلا اراکین نئے چیف جسٹس کی تقرری سے پہلے اگر تین سینئیر ترین ججوں سے ان کے چیمبروں میں ملنا شروع ہو گئے تو یہ سرگرمیاں سپریم کورٹ کی بطور ادارہ یکجہتی کے ساتھ کیا گُل کھلائیں گی؟ کیا گارنٹی ہے کہ جو وکلا بطور تنظیمی عہدیدار اپنی فیسیں بڑھا لیتے ہیں وہ چیف جسٹس تعینات کرنے والی کمیٹی کے بطور رکن تین امیدوار ججوں سے بڑے کیسوں میں مرضی کا فیصلہ نہیں مانگیں گے؟ ۱۱- کیا خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اراکین کے لیے بھی کوئی ضابطہ اخلاق بنایا جائے گا جس طرح اعلی عدلیہ کے ججوں کے لئیے ضابطہ اخلاق موجود ہے؟ اور کیا ایسے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اس رکن کمیٹی کی ووٹ گنتی میں شامل کر کے اور اُس سے نیا چیف جسٹس تعینات کرنے کے بعد اُس رکن اسمبلی کو سیٹ سے محروم کیا جا ئے گا؟

۱۲- یوں تو آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے میں ایسی کمیٹی میں ووٹنگ کو پارلیمانی پارٹی کی ھدایت پر عمل درآمد سے مشروط نہیں کیا گیا مگر کیا آئین میں یہ وضاحت ضروری نہیں کہ اُس کمیٹی کے اراکین نئے چیف جسٹس کی تقرری کے حوالے سے اپنے ضمیر (اگر ہوا تو) کے مطابق ووٹ دینے کے مجاز ہونگے؟

۱۳- کیا آئینی بنچ کی طرح نئے چیف جسٹس کے پینل سے انتخاب کے کیلئے بھی چاروں صوبوں کی باری باری نمائندگی کو یقینی بنایا جائیگا؟ یعنی اگر پنجاب کا چیف جسٹس ریٹائر ہو رہا ہے تو کیا اگلا چیف جسٹس بھی پنجاب سے ہی ہو گا؟ یا اگر تین ججوں میں سے کوئی چھوٹے صوبے کا ہو ہی نا یا اگر ہو تو تسلسل سے اسکا انتخاب ہی نہ کیا جا رہا ہو تو؟ ۱۴- کیا ایکٹنگ یا قائم مقام چیف جسٹس کی تعیناتی کمیٹی کریگی یا سینیئر ترین خود بخود چارج سنبھال لے گا؟ پہلے ججز جانتے تھے کہ وہ چیف جسٹس ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ آئین کے مطابق بننے سے پہلے ریٹائر ہو جائیں گے اور حکومت یا سیاستدان اُن کو یہ عہدہ نہیں دلوا سکتے تھےاس لیے خالق اور مخلوق کے سامنے سرخرو ہونا بہتر ہے۔

دوسری طرف آئین پر انحصار کرنے والے وہ ججز تھے کہ جو جانتے تھی کہ آئین کی مطابق جب ان کی سینیارٹی بھی باری آئے گی تو انھیں چیف جسٹس نننے سے کوئی روک نہیں سکتا، اس لیے کسی کا احسان لینے کی بجائے عوام کےساتھ انصاف کیا جائے۔ چیف جسٹس کے عہدے کے لیے یہ امیدی اور نا امیدی جب تک آئین، قانون اور کسی اصول کی بنیاد پر تھی تو عدلیہ سست رفتار پر مگر آزادی کی درست سمت پر گامزن تھی۔ اب ان کے لیے اُمیدی اور نااُمیدی حکومت اور سیاستدان کے مفادات کی بنیاد پر ہو گی تو نظام عدل ایسی دلدل بن جائے گا کہ نگل جائے گا۔ جو وزیراعظم ہر بار آرمی چیف کے انتخاب میں دھوکہ کھاتے رہے اب اُن کے چیلے چیف جسٹس کا انتخاب کرنے کا تجربہ بھی کر لیں کیونکہ چیف جسٹس جو بھی ہو، ہوتا تو ایک جج ہے کوئی آرمی چیف تو نہیں۔ ویسے بھی قاضی فائز عیسی نے جتنا کچھ کر لیا ہے اُس کے بعد کیا فرق پڑتا ہے کہ چیف جسٹس کون ہو اور اُس کا انتخاب کون کرے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے