لاپتہ افراد کمیشن مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا: عدالت
Reading Time: 2 minutesپانچ سال سے لاپتہ شہری عمر عبد اللہ کی عدم بازیابی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا ہے۔
منگل کو ہائی کورٹ نے سابق سیکرٹری داخلہ عارف خان، سابق آئی جی اسلام آباد جان محمد کو بھی شوکاز نوٹس جاری کیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت کی سات دن میں جواب دیں پھر نہ کہنا آپ کو سنا نہیں گیا، نااہلی دکھانے پر چھ چھ ماہ جیل بھیجوں گا، عدالت نے موجودہ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔
سابق سیکرٹری داخلہ،سیکرٹری دفاع،سابق آئی جی اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
سابق سیکریٹری داخلہ عارف خان نے عدالت کو بتایا کہ 2016 اور 2017 میں سیکرٹری داخلہ تھا مجھے اس کا کچھ معلوم نہیں، عدالت کا جوائنٹ سیکرٹری سے استفسار کیا کہ کیا آپ سیکرٹری داخلہ کو بتاتے نہیں کہ لاپتہ افراد سے متعلقہ کیا ہوتا ہے؟
جسٹس کیانی نے ریمارکس دیے کہ آج ان سابق کے خلاف تو کل ان حاضر سیکرٹری داخلہ و دفاع کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، اگر آپ نے ذمہ داری نہیں لینی تو پھر وزیر اعظم اس کے ذمہ دار ہوں گے، پولیس یا اینٹلی جنس ایجنسیز کام نہیں کرتیں تو کیا ہو گا، کوئی دہشت گرد بھی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں،عدالتوں میں پیش کریں۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ اس کیس کی تو ہسٹری ہے کیا ہم نے جواب نہیں دینا یہ نظام کیسا چلے گا، اگر ایسے چلتا رہا تو ایک دن لوگ عدالتوں سمیت سارے نظام کو آگ لگا دیں گے، اگر ادارے قانون سے ماورا کام کریں گے تو لوگ بھی ہتھیار اٹھا لیں گے، پولیس فائل دیکھی آئی جی سے لے کر سب نے نااہلی دکھائی، یہ فیملی کھڑی ہے ان کو کیا کہوں ادارے ناکام ہو گئے، کیا سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ صرف عہدے انجوائے کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کمیشن بھی ایک مذاق ہے،کمیشن بھی ایجنسیز سے مل کر کام کرتا ہے، سیکرٹری بنتے ہوئے دل خوش ہوتا ہے لیکن کام کی باری تو ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں، ایک میسج جائے گا کسی کو تو سزا ہونی ہے کہیں سے تو کام شروع ہونا ہے، چھوٹا سا اسلام آباد ہے ہر مہینے کے چار پانچ لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں ان سے یہ بھی حل نہیں ہورہا، لاپتہ افراد کمیشن مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا پانچ پانچ سال کیسز پڑے رہتے ہیں، پولیس کے علاوہ ایجنسیز کا انویسٹی گیشن میں کوئی رول نہیں۔
عدالت میں پیش کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے 43 کیسز زیر التوا ہیں، رپورٹ میں یہی لکھا ہوا ہے کہ پولیس اور لوگوں کی موجودگی میں اس شخص کو اٹھایا گیا، یہ اختیارات کے ناجائز استعمال کی واضح مثال ہے۔
عدالت کا کہنا تھا سیکیورٹی اداروں کی بڑی قربانیاں ہیں ہم ان کی قدر کرتے ہیں، عدالت نے سیکریٹری داخلہ و دفاع سے جواب طلب کرتے ہوئے تین فروری تک ملتوی کر دی۔