ڈینیئل پرل قتل کیس: ملزم عمر سعید شیخ نے عدالت کو خط میں کیا لکھا؟
Reading Time: 3 minutesپاکستان میں 19 برس قبل اغوا کے بعد قتل کیے گئے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ کو لکھے گئے خط کے مندرجات پر حیرت ظاہر کی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے اس کیس میں مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی موت کی سزا کو ختم کر کے سات سال قید کی سزا دی تھی جبکہ دیگر تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلیمان ثاقب کو بری کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
مقتول امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے والدین کی جانب سے اس مقدمے میں پیروی کرنے والے وکیل فیصل صدیقی نے سپریم کورٹ کو مرکزی ملزم کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ کو لکھے گئے خط کا بتایا تو ججز کو حیرت ہوئی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل اس خط اور اس کے مندرجات کے بارے میں کوئی خبر کہیں بھی نہیں آئی تھی۔
سندھ ہائیکورٹ کو 25 اگست 2019 کو اپنے خط میں احمد عمر سعید شیخ لکھتے ہیں کہ ‘گزشتہ 17 برسوں سے سزائے موت کی کال کوٹھڑی میں ہوں اور اب تک یہ میری اپیل زیرسماعت ہے۔ سنہ 2002 میں مجھے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی۔’
احمد عمر شیخ کے مطابق ‘تاہم یہ بات عوامی ریکارڈ پر ہے کہ میں نے ڈینیئل پرل کو اغوا کیا اور نہ ہی اس کے قتل میں شریک تھا۔ یہ بات امریکی حکومت نے بھی تسلیم کی، پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف بھی اپنی کتاب ‘ان دی لائن آف فائر’ میں لکھ چکے ہیں۔’
کیس کے مرکزی ملزم نے اپنے خط میں امریکی مصنف برنارڈ ہنری لیوی کی کتاب ‘ڈینیئل پرل کو کس نے قتل کیا؟’ کا بھی حوالہ دیا ہے اور امریکہ یونیورسٹی میں اس حوالے سے کئی گئی ریسرچ اور کئی اخبارات میں شائع رپورٹس کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے ہائیکورٹ کو لکھا ہے کہ ‘میرا کردار اس معاملے میں بہت چھوٹا سا تھا جس پر سزائے موت نہیں بنتی۔ اور نہ ہی اس کی سزا اتنی قید ہے جتنی میں جیل میں گزار چکا ہوں، جو قید تنہائی ہے اور عدالت کے اس حکم کے باوجود کہ مجھے بھی دیگر قیدیوں کے ساتھ رکھا جائے، پر عمل نہیں ہوا۔’
عمر سعید شیخ لکھتے ہیں کہ ‘اس وقت (2002) کی حکومت پر امریکہ کا بہت زیادہ دباؤ تھا جس کے اثر میں میرے خلاف من گھڑت شواہد تیار کیے گئے اور سزا دلوائی گئی تاکہ دباؤ کو کم کیا جا سکے۔’
مرکزی ملزم کے مطابق جب اس کیس میں ڈینیئل پرل کو اغوا کرنے والے ملزم (عطا الرحمان المعروف نعیم بخاری) کو گرفتار کیا گیا ‘تو اس کے خلاف فرد جرم اس لیے عائد نہ کی گئی کہ ایسا کرنے سے میرے خلاف جھوٹے، من گھڑت شواہد اور سزا دلوانے کا مشرف حکومت کا پول کھل جائے گا۔’
عمر سعید شیخ مزید لکھتے ہیں کہ ‘باوجود اس حقیقت کے کہ اس کیس میں عطا الرحمان بمعروف نعیم بخاری کے بارے میں اطلاع دینے پر دس لاکھ کی انعامی رقم رکھی گئی تھی، اس کی گرفتاری کے بعد عدالت میں پیش نہ کیا گیا اور برسوں تک رینجرز کی خفیہ اور غیر قانونی تحویل میں رکھا گیا۔’
مرکزی ملزم کے خط کے مطابق عطا الرحمان نعیم بخاری کو بعد ازاں منشیات رکھنے کے ایک جھوٹے کیس میں گرفتاری ظاہر کر کے دو سال تک سکھر جیل میں قید رکھا گیا اور رہائی کے بعد اس نے کراچی کی تاریخ کے بدترین حملے کیے جن میں سے ایک ناظم آباد میں رینجرز کے ہیڈ کوارٹرز کو اڑانے کا بھی تھا جہاں اس کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا تھا۔
عمر سعید شیخ کے مطابق ‘عطا الرحمان نعیم بخاری کو تین برس قبل گرفتار کیا گیا اور ایک فوجی عدالت نے اس کو سزائے موت سنائی ہے اگر اس پر عمل کیا گیا تو ڈینیئل پرل کے قتل کے شواہد ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جائیں گے۔’
مرکزی ملزم نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ عطا الرحمان نعیم بخاری کی سزائے موت کو روکنے کے لیے اس وقت تک حکمِ امتناع جاری کیا جائے جب تک وہ ڈینیئل پرل قتل کیس میں اپنا بیان نہیں دے دیتا۔
عمر سعید شیخ نے عدالت سے یہ بھی استدعا کی ہے کہ ان کو اور ملزم عطا الرحمان نعیم بخاری کو بھی بلایا جائے اور بیانات قلمبند کیے جائیں تاکہ اصل صورتحال سامنے آ سکے، ‘اور مجھے موقع دیا جائے کہ اس کیس میں اپنے اصل کردار کے بارے میں بتا سکوں تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔’
واضح رہے کہ یہ خط عدالتی ریکارڈ پر ہے اور سندھ ہائیکورٹ میں اس پر بحث نہیں کی گئی جبکہ فیصلے میں بھی اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے اس خط کی نشاندہی کرنے پر ججز نے ان کو اس کے مندرجات پڑھنے سے روک دیا اور سندھ حکومت کے وکیل سے جواب طلب کیا۔