جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کے سربراہ پر کیا الزام لگایا؟
Reading Time: 3 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کیس کے فیصلے پر نظرثانی درخواستوں کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
قبل ازیں سماعت کے دوران درخواست گزار جسٹس فائز نے بینچ کے سربراہ جسٹس بندیال پر ایک بار پھر الزامات عائد کیے ہیں۔
رپورٹ: جہانزیب عباسی
پیر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے مقدمے کی سماعت شروع کی تو وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ وہ بینچ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا تھا کہ وفاق نظرثانی کیس میں فریق ہی نہیں ہے تو اسے کیوں سنا جائے، اس کا جواب ہے کہ وفاق اس کیس میں براہ راست فریق ہے، وفاق کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ عدالتی احکامات کا دفاع کرے۔
یڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایک سوال جسٹس منیب اختر کی طرف سے پوچھا گیا تھا کہ نظرثانی درخواست منظور ہو گئی تو بھی کیا ایف بی آر رپورٹ پر کارروائی ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے کہ اگر کسی فیصلے پر عمل درآمد ہو جائے تو نظرثانی کے باوجود وہ فیصلہ واپس نہیں ہو سکتا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے سوال پوچھا گیا کہ کیا سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو دستیاب معلومات کا جائزہ لینے سے روک سکتی ہے؟ جس کا جواب ہے کہ معلومات کے حصول کے بعد سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی، آرٹیکل 211 کے تحت جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ اپنے پہلے دیے گئے دلائل کے خلاف دلائل دے رہے ہیں، سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری کیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ احتیاط سے کام لیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ ان سوالات کو کلئیر کر دیتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کیس میں ایک نیا پنڈورا باکس کھولنا چاہتے ہیں، بار بار یاد دہانی کرا چکا ہوں کہ وقت کم ہے، بنچ کے ایک ممبر نے 4 دن میں ریٹائر ہو جانا ہے، خوامخواہ عدالت کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔
حکومتی وکیل عامر رحمان نے کہا کہ میں ان سوالات کے جوابات دے رہا ہوں جو عدالت نے مجھ سے کیے، درخواست گزار بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت کا وقت ضائع کر رہا ہوں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ عدالت ایف بی آر رپورٹ نہیں دیکھے گی، جسٹس مقبول باقر
، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق درخواست گزار جج کا جواب دینا لازم ہے یا نہیں اس کا جواب قانون شہادت میں موجود ہے، قانون شہادت کے آرٹیکل 122کے تحت جس پر الزام لگایا ہے اس کو جواب دینا پڑتا ہے۔
جسٹس منظور احمد ملک کا اس موقع پر کہنا تھا کہ آپ غیر متعلقہ دلیل دے رہے ہیں۔
جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب قانون بھی واضح ہے اور ہمارے زہن بھی بالکل کلئیر ہیں۔
جسٹس قاضی امین نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ زیر سماعت مقدمہ فوجداری یا دیوانی ٹرائل نہیں ہے، ایسے نہ کریں، ہم نے پوری زندگی اسی قانون کو پڑھنے میں گزار دی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس وقت جو مجھ پر اور میرے بیوی بچوں پر گزر رہی ہے اللّٰہ نہ کرے کل یہ وقت آپ پر بھی آئے، عدلیہ کی خود مختاری کے لیے کھڑا ہوں، گزشتہ روز سے پھر میرے خلاف پراپیگنڈا ہو رہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک جلاد تیمور لنگ نے فارس کو فتح کیا، فتح کے بعد تیمور فارس کے بادشاہ پر ہنس رہا تھا، فارس کے بادشاہ نے کہا کہ میں اگر کانا ہوں تو تم بھی لنگڑے ہو، فارس کے بادشاہ نے کہا تم مجھے قتل کر دو لیکن مجھ پر ہنسو مت کیوں کہ میں بھی ایک بادشاہ ہوں، میں سپریم کورٹ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اب بھی ایک جج ہوں، اگر ایک ریٹائرڈ جرنیل کے حوالے سے ایک جملہ کہیں تو آپ کو شمالی علاقہ جات کی سیر کرنا پڑتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انہوں نے جاسوسی سے متعلق کچھ اسلامی قوانین پر مشتمل دستاویزات جمع کروائی ہیں، اپنے جواب میں کچھ ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جو میں نہیں کہنا چاہتا تھا اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر ذرائع آمدن وضاحت کے قابل نہیں ہیں تو جواب دینا ہوگا، احتساب کا عمل عوامی اعتماد میں اضافہ کرتا ہے، غیر ملکی بنک اکاؤنٹس کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ بیرون ملک رقوم بھیجنے سے ملکی معیشت کو نقصان ہو رہا ہے، سات جج صاحبان نے اکثریتی فیصلے میں قرار دیا کہ ہم بطور عدلیہ جواب دہ ہیں۔