کالم

اسد طور! یہ کون سی نئی بات ہے

اسد طور! یہ کون سی نئی بات ہے

Reading Time: 3 minutes

پیر کو راولپنڈی میں تھا اور چھوٹے بھائی کے پاس کینٹ میں رکا کیونکہ آس پاس بہت سے کام نمٹانے تھے اور شیڈول بہت ٹائٹ تھا جبکہ شام کو واپس پشاور بھی پہنچنا تھا اس لیے ابصار عالم کی بیمار پرسی بھی اگلے ہفتے تک موخرکر لی۔
شام ڈھلے گاڑی موٹروے پر چڑھی تو اسلام آباد سے ایک دوست کا فون آیا کہ کہاں ہو ؟
موٹروے پر ہوں اور پشاور واپسی ہے، میں نے جواب دیا۔
تم نے تو کہا تھا کہ ابصار عالم کو دیکھنے اس کے گھر جائیں گے اور میں تو تمھارا انتظار کرتا رہا.
سوری یار بہت مصروف رہا اس لیے موقع ہی نہیں ملا لیکن اگلے ہفتے آوں گا تو ابصار عالم کے پاس بھی جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ تب تک اسد علی طور , عمار مسعود یا کسی اور صحافی دوست کی بھی ابصار عالم والی حالت کر دی گئی ہو تو اس کی بھی لیں گے۔
بغیر سوچے یہ جملہ بولا تو دوست نے کہا اللہ خیر کرے اور سب کو حفظ و امان میں رکھے۔

منگل کی رات میں سوشل میڈیا پر اسد علی طور کے ٹوئٹر سپیس پر موجود تھا جس پر لندن سے کوئی صاحب بودے انداز میں بات کر رھا تھا اور سردار شعیب انتہائی مدلل انداز میں اس کے فرسودہ اور بے بنیاد نقطہ نظر کے پرخچے اڑا رہے تھے جبکہ بیچ بیچ میں اسد طور میزبان ہونے کے ناطے بات سمیٹنے کی کوشش کر رھا تھا کہ اچانک اسد طور کے دروازے پر دستک کی آواز سنائی دیا اور وہ کچھ دیر کے لیے چلے گئے۔
میں انتظار کر تا رہا کہ وہ واپس آئیں تو میں اپنی بات کروں گا لیکن کافی وقت گزرنے کے بعد بھی وہ واپس نہیں آئے تو میں تازہ ترین ٹویٹس کی طرف متوجہ ہوا اچانک وسیم عباسی کی ٹویٹ پر نظر پڑی تو سکتے میں آ گیا، لکھا تھا کہ
اسد علی طور پر گھر میں نامعلوم افراد کا حملہ زخمی حالت میں ہسپتال منتقل۔
میں ابھی سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ عمار مسعود نے بھی اسی سپیس میں یہ خبر اناونس کر دی۔ سراسیمگی میں اسد علی طور کا نمبر ملایا لیکن ظاہر ہے فون اب اس کے پاس کب تھا۔ میں ایک بے چینی کے ساتھ ٹہلتا اور دوستوں کو فون پر فون کرتا رہا تاہم مزید معلومات کسی کے پاس بھی نہ تھیں۔
تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد ایک دوست نے تازہ ترین ویڈیو بھیجی جس میں اسد علی طور زخمی جسم اور خون آلود کپڑوں کے ساتھ ہسپتال میں تھا۔
یہ دیکھ کر جان میں جان آئی کہ چلو صرف زخمی ہے، جان سے تو نہیں گیا۔ جان سے جاتا بھی تو کوئی حملہ آوروں کا کیا بگاڑ لیتا۔

عذاب دیدہ وری گر کہیں رقم ہو جائیں
تو حکم یہ ہے کہ وہ ھاتھ سب قلم ہو جائیں

اسد علی طور کے بارے ابھی تک میں اس نتیجے پر نہیں پہنچا کہ اس کا قد کاٹھ بحیثیت صحافی زیادہ بلند ہے یا ایک دلیر نوجوان کے، لیکن جو لوگ اس سے آگاہی رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسد طور ایک صحافی کی جبلت لے کر پیدا ہوا ہے، اس لیے وہ ایک حیرت انگیز مہارت کے ساتھ ان گوشوں سے بھی خبر اچک لیتا ہے جو اس جیسے صحافیوں کے لیے غنیم کے منطقے سے کم ہی نہیں۔ اسد نہ صرف خبر اڑا لیتا ھے بلکہ شام ڈھلے اپنے یو ٹیوب چینل پر ایک جنوں خیز دلیری کے ساتھ لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔

گزشتہ پچاس گھنٹوں کے دوران وہ یکے بعد دیگرے کچھ ایسے موضوعات اور ششدر کر دینے والی سٹوریز سامنے لے آیا کہ ایسٹبلشمنٹ اور عمران خان تو کیا شہباز شریف تک کو بھی نہیں بخشا۔ وہ شہباز شریف کو بھی اپنی ٹھوس دلائل اور حیرت انگیز معلومات کی بنیاد پر چودھری نثار والی پوزیشن پر لے گیا۔

کچھ دن پہلے اس نے ا پنے والدین کو ملنے والی دھمکیوں کا ذکر بھی کھل کر کیا جبکہ جعلی صحافیوں کے تو وہ بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیتا ھے۔
سو اسد علی طور کے جرائم کی فہرست طویل بھی ھے اور خوفناک بھی اس لیے اسے شکر گزار ہونا چاہیے کہ ایک "خطرناک مجرم ” ہوتے ہوئے بھی اسے زندہ رہنے دیا گیا صرف تشدد کیا گیا، تو یہ اس ملک میں کون سی نئی یا بڑی بات ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے