خواجہ سرا، پاکستان کا نظرانداز اور محروم طبقہ
ثوبان افتخار راجہ
پاکستانی معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں مختلف طبقات کو ان کے شناختی، سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کے حوالے سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے ایک نہایت اہم مگر سب سے زیادہ نظرانداز اور محروم طبقہ خواجہ سرا افراد کا ہے۔ خواجہ سرا، جنہیں عام طور پر ’ہیجڑا‘ یا ’مخنث‘ جیسے الفاظ سے پکارا جاتا ہے، معاشرے میں ایک تماشے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں نہ کہ انسان کے طور پر۔ ان کے ساتھ ہونے والا سلوک نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ کس قدر تعصب، تنگ نظری اور لاعلمی کا شکار ہیں۔
خواجہ سرا افراد کو بچپن سے ہی معاشرتی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات جب ایک بچہ ایسا پیدا ہوتا ہے جو روایتی مرد یا عورت کی جنس میں مکمل طور پر فٹ نہیں بیٹھتا، تو خاندان اسے شرمندگی، بدنامی اور خوف کی بنیاد پر مسترد کر دیتا ہے۔ ایسے بچوں کو اکثر اوقات کسی خواجہ سرا گروہ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ افراد اپنی حقیقی شناخت، خاندان، تعلیم اور معاشرتی ماحول سے دور ہو جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسے دائرے میں چلے جاتے ہیں جہاں ان کے پاس اپنے تحفظ، تعلیم، روزگار یا عزت کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔
تعلیم کے شعبے میں خواجہ سرا افراد کو شدید امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سکولوں میں دیگر طلبہ اور یہاں تک کہ اساتذہ کی جانب سے تمسخر، طنز اور بدتمیزی کا رویہ انہیں تعلیمی ماحول سے باہر دھکیل دیتا ہے۔ خواجہ سرا بچے عمومی طور پر پرائمری تعلیم بھی مکمل نہیں کر پاتے اور بہت کم لوگ ہی اعلیٰ تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں۔ اس تعلیمی خلا کی وجہ سے انہیں بہتر روزگار کے مواقع نہیں ملتے اور وہ ایک مخصوص طرز زندگی اپنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو معاشرے میں پہلے سے منفی نظریات کو مزید تقویت دیتا ہے۔
روزگار کی دنیا میں بھی ان کے لیے دروازے بند ہوتے ہیں۔ دفاتر، فیکٹریوں، دکانوں یا کسی اور ادارے میں خواجہ سرا افراد کو ملازمت دینے کی شرح نہایت کم ہے۔ اگر کوئی فرد قابلیت رکھتا بھی ہو تو اسے یا تو انٹرویو میں مسترد کر دیا جاتا ہے یا بعد میں ہراسانی اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بعض نجی ادارے محض نمائشی طور پر خواجہ سرا افراد کو ملازمت دیتے ہیں لیکن انہیں عزت اور برابری کا مقام نہیں دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر خواجہ سرا ناچ گانے، بھیک مانگنے یا جنسی خدمات فراہم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں مزید ذلت اور حقارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خواجہ سرا افراد کی صحت کے مسائل بھی بے حد پیچیدہ ہیں لیکن صحت کے نظام میں ان کے لیے نہ کوئی علیحدہ سہولتیں ہیں اور نہ ہی عملے کو ان کے مسائل سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
سرکاری یا نجی ہسپتالوں میں اکثر انہیں جنس کی بنیاد پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو مردوں کے وارڈ میں نہیں لیا جاتا، کسی کو عورتوں کے وارڈ میں، اور ان کے لیے کوئی علیحدہ سہولت دستیاب نہیں ہوتی۔ طبی عملہ نہ صرف لاعلم ہوتا ہے بلکہ اکثر خواجہ سرا مریضوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کرتا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے بہت سے خواجہ سرا افراد علاج کروانے سے گریز کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی صحت بگڑتی جاتی ہے۔
قانونی نظام بھی خواجہ سرا افراد کو مکمل تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ اگرچہ 2018 میں پاکستان میں ٹرانسجینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ منظور کیا گیا، جس کے تحت خواجہ سرا افراد کو شناخت، تعلیم، صحت، جائیداد، روزگار اور دیگر بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی لیکن یہ قانون زیادہ تر کاغذ تک ہی محدود ہے۔ عمل درآمد کی صورتحال نہایت افسوسناک ہے۔ پولیس کی سطح پر اکثر خواجہ سرا افراد کو نہ صرف تحفظ نہیں ملتا بلکہ الٹا انہیں مجرم سمجھ کر ہراساں کیا جاتا ہے۔ جنسی زیادتی، مارپیٹ اور قتل کے واقعات کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی یا پھر متاثرہ فرد کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ عدالتوں میں انصاف حاصل کرنا ان کے لیے ایک دور کا خواب بن چکا ہے۔
سماجی سطح پر بھی خواجہ سرا افراد کو مکمل طور پر حاشیے پر دھکیل دیا گیا ہے۔ ان کے لیے شادی، مذہبی تقریبات، یا عام معاشرتی میل جول میں شمولیت ممنوع سمجھی جاتی ہے۔ مذہبی حلقے عموماً خواجہ سرا شناخت کو تسلیم نہیں کرتے اور بعض اوقات انہیں اسلام سے خارج کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، حالانکہ اسلام نے ہر انسان کو عزت، مساوات اور رحم کا درس دیا ہے۔ مذہب کو اکثر تعصب کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں نفرت، خوف اور غلط فہمیاں مزید گہری ہو جاتی ہیں۔
میڈیا اور پاپ کلچر نے بھی خواجہ سرا افراد کی تصویر کشی کو منفی اور مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا ہے۔ ڈراموں، فلموں اور مزاحیہ شوز میں انہیں صرف مزاق کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ اس نمائندگی کی وجہ سے عوامی رائے مزید بگڑتی ہے اور لوگ خواجہ سرا افراد کو سنجیدہ شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ میڈیا کے اس منفی کردار کو مثبت بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگوں میں آگاہی، ہمدردی اور قبولیت پیدا ہو۔
مجموعی طور پر، خواجہ سرا افراد کو پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں محرومی، تضحیک، استحصال اور ناانصافی کا سامنا ہے۔ ان کے ساتھ سلوک نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے جو انصاف، برابری اور احترام کے اصولوں سے دور ہو چکا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ خواجہ سرا افراد بھی اسی ملک کے شہری ہیں، انہیں بھی جینے، سیکھنے، کام کرنے اور عزت سے زندگی گزارنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کو ہے۔ ان کے مسائل کو صرف حکومتی سطح پر ہی نہیں بلکہ سماجی، مذہبی اور تعلیمی سطح پر بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم واقعی ایک مہذب، ترقی یافتہ اور انصاف پسند معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں خواجہ سرا افراد کے لیے اپنے رویوں، قوانین اور نظام کو بدلنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہم نہ صرف ان کی زندگیوں کو برباد کرتے رہیں گے بلکہ اپنے معاشرے کی روح کو بھی مجروح کرتے رہیں گے۔