مدرسے میں جنسی زیادتی کا ملزم مفتی عزیز الرحمان گرفتار
Reading Time: 3 minutesلاہور میں پولیس نے مدرسے میں طالب علم سے جنسی زیادتی کرنے والے مفتی عزیز الرحمان اور ان کے بیٹے کو پولیس نے میانوالی سے گرفتار کر لیا ہے جبکہ دوسرے بیٹے عتیق الرحمان کو کاہنہ کے علاقے میں ایک مدرسے سے حراست میں لیا گیا. پنجاب پولیس کے سربراہ انعام غنی نے کہا ہے کہ یہ ٹیسٹ کیس ہے ملزم کو سزا دلوائیں گے.
پولیس نے گزشتہ ہفتے مدرسے کے طالب علم سے مبینہ بدفعلی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جمعیت علمائے اسلام لاہور کے نائب امیر اور جامعہ منظور الاسلامیہ کے برطرف عہدیدار مفتی عزیز الرحمٰن کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس کے بعد وہ فرار ہو گئے تھے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں مفتی عزیز الرحمٰن کو ایک لڑکے سے مبینہ بدفعلی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
شکایت پر مفتی عزیز الرحمٰن کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377 (غیر فطری جرائم) اور دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی دینے کی سزا) کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔
17 جون کو درج ایف آئی آر کے مطابق متاثرہ طالب علم نے بتایا کہ اسے جامعہ منظور الاسلامیہ میں 2013 میں داخلہ ملا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امتحانات کے دوران مفتی عزیز الرحمٰن نے ان پر اور ان کے دوست طالب علم پر امتحان کے دوران کسی اور کو امتحان دلانے کا الزام لگایا تھا۔
انہوں نے شکایت میں کہا کہ اس کے ساتھ ہی مجھ پر وفاق مدارس میں 3 سال تک امتحانات دینے پر پابندی عائد کردی گئی۔
شکایت کنندہ نے کہا کہ انہوں نے مفتی عزیز الرحمٰن سے معاف کردینے کی التجا کی۔
متاثرہ لڑکے نے بتایا کہ مفتی عزیز الرحمٰن نے کہا کہ اگر جنسی حرکتوں سے انہیں ‘خوش’ کردوں تو کچھ سوچ سکتے ہیں۔
شکایت کنندہ نے مزید کہا کہ ان کے پاس جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
ایف آئی آر میں شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ مفتی عزیز الرحمٰن نے دعویٰ کیا تھا کہ ان پر پابندی ختم ہوجائے گی اور امتحانات میں بھی پاس ہو جاؤ گے۔
We have been able to arrest this criminal. We will take it as a test case, interrogate him, conduct scientific professional investigation, prosecute and get him convicted by the court. We want our kids protected from these child molesters and keep our society safe for our future. pic.twitter.com/W8frA3irKC
— Inam Ghani QPM & Bar, PSP (@InamGhani) June 20, 2021
شکایت کنندہ نے مزید الزام لگایا کہ ‘تین سال گزر گئے اور اس عرصے میں ہر جمعے کو بدفعلی کرتے اور لیکن مجھ پر پابندی ختم ہوئی نہ امتحانات میں پاس ہوا بلکہ مزید بلیک میل کرنا شروع کردیا۔
متاثرہ طالب علم کے مطابق اس نے مدرسے کی انتظامیہ کو شکایت کی تو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا کہ مفتی عزیز الرحمٰن ‘بزرگ اور نیک سیرت شخص’ ہیں بلکہ انتظامیہ نے الٹا مجھے ہی جھوٹا قرار دے دیا۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ اس کے بعد مفتی عزیز الرحمٰن کی بدفعلی کی ریکارڈنگ پیش کی اور وفاق المدارس العربیہ کے ناظم کو دکھائی جس کے بعد مفتی عزیز الرحمٰن نے مجھے جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیں۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ ویڈیو اور آڈیو کی بنیاد پر مدرسے کی انتظامیہ نے مفتی عزیز الرحمٰن کو فارغ کردیا جس کے بعد انہیں غصہ آگیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد سے مفتی عزیز الرحمٰن اور ان کے بیٹے کی جانب سے سنگین نتائج کی دھکمی دی جارہی ہیں۔
چند روز قبل منظر عام پر آنے والی ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے اور شہریوں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر وائرل مفتی عزیز الرحمٰن نے اپنے پیغام میں کہا کہ انہیں اس معاملے میں گھسیٹا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ ‘ہوش میں’ تھا تو لڑکا موبائل فون کا استعمال کرتے ہوئے انہیں بتائے بغیر کیسے ویڈیو بنا سکتا تھا۔
مفتی عزیز الرحمٰن نے کہا کہ یہ ایک سازش ہے تاکہ انہیں مدرسے سے ہٹایا جائے۔
تین جون کو جامعہ منظور الاسلامیہ نے مفتی عزیز الرحمٰن کو ہٹا دیا تھا۔
اسد اللہ فاروق کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ محلے کے کچھ افراد مدرسے تشریف لائے اور انتظامیہ اور مفتی عزیز الرحمٰن کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی ویڈیو دکھائی جس کے بعد مفتی عزیز الرحمٰن کو برطرف کر دیا گیا۔