اہم خبریں متفرق خبریں

تھینک یو ! چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پرویز مشرف کے وکیل سے مکالمہ

نومبر 28, 2023 3 min
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

تھینک یو ! چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پرویز مشرف کے وکیل سے مکالمہ

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے کے فیصلے کے خلاف اپیل اور خصوصی عدالت کو ختم کرنے کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی سماعت کی ہے۔

سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کو سزا سنانے کے فیصلے کے خلاف اُن کی اپیل پر وکیل سلمان صفدر پیش ہوئے جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر دلائل وکیل حامد خان نے دیے۔

منگل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چار رکنی عدالتی بینچ نے سماعت کی۔

پاکستان بار کونسل کی جانب سے ہارون الرشید کے دلائل کا آغاز کیا ت چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے کا ذکر کیا؟ کیا کہیں ذکر ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، ایسا نہیں تو پھر خصوصی عدالت کا فیصلہ تو اپنی جگہ موجود ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے جب فیصلہ دیا تو کیا خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی تھی۔
چیف جسٹس کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے جب خصوصی عدالت کے فیصلے پر کچھ نہیں کہا تو اکیڈمک مشق کی کیا ضرورت تھی؟
چیف جسٹس نے پاکستان بار کونسل کے نمائندے کی تیاری نہ ہونے پر ناگواری کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ سے ہمیں کوئی معاونت نہیں مل رہی۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے جب فل کورٹ کی تشکیل تجویز کی تو اگلی تاریخ کیسے دی؟ فل کورٹ تشکیل دینا نہ دینا تو پھر چیف جسٹس کا اختیار تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ آجانے کے بعد تو لاہور ہائیکورٹ میں زیر التواء درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔ فیصلے کے بعد ہائیکورٹ میں درخواست ترمیم کے بعد کی چل رہی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ خصوصی عدالت کے فیصلے کو نظرانداز کر کے صرف عدالت کی حیثیت پر فیصلہ
جسٹس کے مطابق پرویز مشرف بھی سمجھتے تھے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد بھی خصوصی عدالت کا نہیں دے سکتی تھی، خصوصی عدالت ایک ریگولیٹر عدالت تھی ہی نہیں، وہ تو ایک فیصلے کے لیے تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف بھی سمجھتے تھے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے باوجود خصوصی عدالت کی سزا برقرار ہے اس لیے انہوں نے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر سے سوال کیا کہ آپ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو مانتے ہیں یا نہیں؟
وکیل نے جواب دیا کہ اُن کو مؤکل کی جانب سے اس سے متعلق ہدایات نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات کی بات نہ کریں آپ خود ایک قانونی ماہر کی حیثیت سے بتائیں۔ کیا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو فیصلہ مانتے ہیں؟ چیف جسٹس

مشرف کے وکیل کے سلمان صفدر نے جواب دیا کہی اُن کی نظر میں لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ، فیصلہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سے کہا کہ تھینک یو۔
ان کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا جو راستہ چنا تھا ہم اس سے متفق ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمے میں پوچھا کہ کیا آپ بھی لائر ہائیکورٹ میں سیم پیج پر تھے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا وفاق نے بھی لاہور ہائیکورٹ کو نہیں بتایا کہ اب خصوصی عدالت فیصلہ سنا چکی۔ کیا آپ نے لاہور ہائیکورٹ سے کہا نہیں کہ آپ آ گئے نہیں چل سکتے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل سوال کا واضح جواب نہ دے سکے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بارہ اکتوبر کے اقدام کو اسی عدالت نے راستہ دیا۔ مشرف کے مارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ مشرف کے خلاف کارروائی صرف تین نومبر کے اقدام پر کیوں کی گئی؟ تین نومبر کو صرف ججوں پر حملہ ہونے پر کارروائی ہو گی تو فئیر ٹرائل کا سوال اٹھے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا ججوں پر حملہ اسمبلیاں توڑنے آئین معطل کرنے سے زیادہ سنگین معاملہ تھا؟

سندھ ہائیکورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی نے ویڈیو لنک پر دلائل کا آغاز تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ پاکستان بار کے وکیل دلائل اپنانا چاہتے ہیں
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ رشید رضوی صاحب ماضی میں کب تک جائیں گے،کہ کیا کیا ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ کا احترام ہے مگر ہمیں اب ماضی میں جانا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بالکل جائیں پھر اسی مشرف نے 12 اکتوبر کو بھی آئین توڑا، اسمبلیاں توڑیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے