یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت
Reading Time: 2 minutesعالمی رہنماوں اور اسلامی ممالک کے تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اعلیٰ امریکی حکام نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ آج یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیں گے ۔ صدر ٹرمپ وزارتِ خارجہ کو حکم دیں گے کہ وہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا عمل شروع کر دیں۔ امریکی صدر کا یہ فیصلہ یروشلم کے بارے میں برسوں پر محیط امریکی پالیسی اور بین الاقوامی اتفاقِ رائے کے منافی ہے ۔ عرب ملکوں نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں اسلامی ممالک میں تشدد کی لہر اٹھ سکتی ہے۔ امریکی حکام کا موقف ہے کہ صدر ٹرمپ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں کہ یروشلم عملی طور پر اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔ دوسری طرف فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ان کا بھی دارالحکومت ہے۔
امریکی صدر نے متعدد عرب رہنماؤں کو فون کر کے بتایا کہ وہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کے شاہ سلمان نے امریکی رہنما کو بتایا کہ ایسا کوئی بھی اقدام دنیا بھر کے مسلمانوں کو اشتعال دلا سکتا ہے۔ سعودی سرکاری پریس ایجنسی کے مطابق شاہ سلمان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے یا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوگا۔ وائٹ ہاؤس کی خاتون ترجمان سارا سینڈرز نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی سوچ اس معاملے پر بہت مضبوط ہے۔ اگر امریکہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے تو وہ ریاست کے سنہ 1948 میں قیام سے لے کر اب تک ایسا کرنے والا پہلا ملک ہو گا۔ بیت المقدس کی حیثیت اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کی جڑ ہے۔
صدر ٹرمپ کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر دنیا کے کئی ممالک نے رد عمل ظاہر کیا ہے۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ ایسے فیصلے کے نتائج نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے امن، سلامتی اور استحکام کے لیے سنگین ہو سکتے ہیں۔ اردن کے شاہ عبد اللہ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ امن عمل کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں کو کمزور کرے گا اور مسلمانوں کو اشتعال دلائے گا۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ علاقے کی صورتِ حال کو پیچیدہ نہ کریں۔ فرانسیسی صدر امانوئل میکخواں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ انھیں تشویش ہے کہ بیت المقدس کی حیثیت پر کوئی بھی فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان مزاکرات کے بنیادی ڈھانچے میں ہونا چاہیے۔ عرب اتحاد کے سربراہ احمد ابو الغیث نے کہا ہے کہ یہ ایک خطرناک قدم ہے جس کے بالواسطہ اثرات مرتب ہوں گے۔ سعودی عرب کے سرکاری ردعمل میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کے تصفیہ سے پہلے ایسا قدم امن کے قیام کے عمل کو بری طرح متاثر کرے گا۔