بابری مسجد کی مسماری کیس فیصلہ
Reading Time: < 1 minuteانڈیا کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی مسماری کیس میں سابق نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی اور بی جے پی کے سابق صدر مرلی منوہر جوشی سمیت سینیئر رہنماؤں پر مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے۔ ان رہنماؤں کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات تکینکی وجوہات کی بنیاد پر ختم کر دیے گئے تھے۔ عدالت نے حکم دیا کہ مقدمے کی سماعت دو سال کے اندر مکمل ہو اور کیس کی کارروائی روزانہ جاری رہے اور کسی بھی بنیاد پر ملتوی نہ کی جائے۔ مسماری سے متعلق دونوں مقدمات کی سماعت اب لکھنؤ میں ہی ہوگی۔ بابری مسجد کی مسماری کو 25 سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی اس کیس میں کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی ہے۔ بابری مسجد چھ دسمبر 1992 کو مسمار کی گئی تھی اور اس دن ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی ایودھیا میں ہی موجود تھے۔ انھیں وہاں جمع ہزاروں ہندو مذہبی عقیدت مندوں کے جذبات بھڑکانے اور مجرمانہ سازش کے الزامات کا سامنا ہے۔
مقدمے کا سامنا کرنے والوں میں وفاقی وزیر اوما بھارتی بھی شامل ہوں گی لیکن کلیان سنگھ، جو بابری مسجد کی مسماری کے وقت اتر پردیش کے وزیراعلی تھے، اس فیصلے کے دائرے میں نہیں آئیں گے کیونکہ وہ اب راجستھان کے گورنر ہیں اور انھیں عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔
زمین کی ملکیت کا کیس فی الحال سپریم کورٹ میں ہے اور چیف جسٹس نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ فریقین کو آپس میں مل کر اس تنازع کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔