حکومت اور جج آمنے سامنے
Reading Time: < 1 minuteحکومت کے ترجمان نے سپریم کورٹ کے جج کی جانب سے ریمارکس پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسے ججوں کے کنڈکٹ کے خلاف قرار دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے دوصفحات کے بیان میں کہاگیاہے کہ جج صاحب کے ریمارکس اعلی عدلیہ کی روایات اورخود سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کے منافی قراردیاہے۔ ترجمان کے مطابق نہال ہاشمی کیس میں معزز جج نے سماعت کے دوران معاملے سے مکمل آگاہی کے بغیر حکومت پر نہ صرف بے بنیاد الزامات لگائے بلکہ وزیراعظم کی جانب سے نہال ہاشمی کے خلاف اٹھائے گئے انتہائی تادیبی اقدامات کو بھی نظر انداز کیا اور ان اقدامات کو محض سپریم کورٹ کی سماعت اور توہین عدالت نوٹس کا ردعمل قراردیا۔ ترجمان نے کہاکہ حقائق اس کے برعکس یہ ہیں کہ حکومت نے نہال ہاشمی کے ریمارکس سامنے آتے ہی نہ صرف ان کی شدید ردعمل ظاہر کیا بلکہ فوری طور پر انہیں ذاتی سوچ قراردیا۔ ترجمان کے مطابق نہال ہاشمی کے ریمارکس پہلی بار صبح دس بج کر پچاس منٹ پر رپورٹ ہوئے جس کے فورا بعد وزیرمملکت برائے اطلاعات نے اعلان کیاکہ یہ نہال ہاشمی کے ذاتی خیالات ہیں اور حکومت یا ن لیگ کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔جس کے بعد نہال ہاشمی سے استعفی لیا گیا اور ان کی پارٹی رکنیت بھی معطل کردی گئی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کی تقریر کا نوٹس شام چھ بجے لیا۔ ترجمان نے کہاکہ معزز جج کی جانب سے حکومت کو سسیلین مافیا اور اٹارنی جنرل کو اس کا نمائندہ قراردینا انتہائی افسوس ناک ہے جس سے دنیا بھر میں ایک ملک کی حیثیت سے پاکستان کی شناخت اور وقار کو دھچکا پہنچا ہے۔ ترجمان نے کہاکہ ایسے بے بنیاد ریمارکس سے خود عدلیہ کے جج صاحبان کے حلف اور ضابطہ اخلاق کے منافی ہے۔