عاصمہ جہانگیر نے فیصلہ دے دیا
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ نظرثانی درخواستوں کے مسترد کیے جانے کا تفصیلی فیصلہ پڑھا ہے اس میں مانیٹرنگ جج سے متعلق جو لکھا گیاہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، کسی ایسے فیصلے کا حوالہ نہیں دیا گیا، کسی وکیل نے بھی ایسا کوئی فیصلہ پہلے نہیں پڑھا یا دیکھا، دہشت گردی کی عدالتوں کی مانیٹرنگ کیلئے جج ہوتے ہیں مگر کسی انفرادی مقدمے کی نگرانی کیلئے جج کی یہ پہلی نظیر ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہوسکتاہے ہم سب وکیل بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہوں اس لیے اگر سپریم کورٹ کے جج اپنے فیصلے میں اس کیس کے فیصلے کا حوالہ دے دیتے جس میں اس طرح پہلے کیا گیا ہو تو ہمیں بھی معلوم ہو جاتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہہ دینا کہ تمام ادار ے ناکام ہو گئے ہیں صرف ہم ہی رہ گئے ہیں، یہ اچھی بات بھی ہے اگر ایسا ہی ہے تو ان کے اپنے جج جن پر انتہائی سنگین الزامات تھے اور ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری تھی وہ استعفا دے کر گھر چلے گئے، ان کو پنشن اور گریجویٹی بھی ملی ہے، اسی طرح ایک جج کا نام پانامہ پیپرز میں آیا، وہ ابھی تک بیٹھا مقدمات سن رہاہے، اس پر تو کسی نے کوئی قدغن نہیں لگائی کہ تیس یا چالیس دن میں کارروائی مکمل کی جائے۔ اس کے علاوہ بھی ہم وکیلوں کو بہت ساری باتیں معلوم ہوتی ہیں مگر ہم ادارے کو بالاتر رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر مجھے یہ لگتا ہے کہ ان (ججوں) کو یہ لکھنا چاہیے تھا کہ کسی ادارے کو عزت راس آہی نہیں رہی،اور اس میں شاید یہ ( سپریم کورٹ) بھی شامل ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ فیصلے میں دوسری بات یہ لکھی ہے کہ عوامی مفاد کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت پہلے بھی عوامی نمائندوں کو نااہل کیا گیا،تو ایسا نہیں ہے، ان فیصلوں میں یہ ہوا تھا کہ نچلی عدالتوں سے معاملہ اپیل میں یہاں آیا تھا، یا پھر ایسے تسلیم شدہ حقائق پر دہری شہریت والوں کو نااہل کیا گیا۔ اسی طرح تعلیمی قابلیت پر نااہلی بھی تسلیم شدہ حقائق پر ہوئی تھی کہ انہوں نے تسلیم کیا تھاکہ گریجویٹ نہیں ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ سپریم کورٹ نے کبھی ایسا کوئی فیصلہ پہلے نہیں دیاکہ عوامی مفاد کے تحت سنے گئے مقدمے میں کرپشن الزامات ہوں۔ انہوں نے کہاکہ یہ صرف ایک شخص کیلئے نہیں بلکہ کسی بھی فرد کے کرپشن کے معاملے میں سپریم کورٹ کو براہ راست نااہلی کا اختیار نہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ نظرثانی فیصلے میں شامل کیے گئے ایک پیراگراف پر اس لیے تبصرہ نہیں کرنا چاہتی ہے کہ میں ککے زئی برادری سے ہوں،وہاں ایک ’وڈی گلی‘ ہوتی تھی جہاں خواتین کے جھگڑے ہوتے تھے، فیصلے کا یہ پیراگراف پڑھ کر مجھے ککے زئی کی وہ گلی یاد آگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل آرڈر ذاتیات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص ذاتیات پر آ کر کہے کہ وہ میرٹ پر چیزیں کر رہا ہے تو مجھے تو اس کی سمجھ نہیں آ رہی ۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اگر میں بطور جج ماتحت عدالت میں بیٹھی ہوتی اور سپریم کورٹ نے یہ باتیں کی ہوتیںتو پھر میں کیا میرٹ پر کرتی اور کیسے متاثر نہ ہوتی۔ عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ متاثر نہ ہونے کا کہنا بہت آسان ہے لیکن کیا یہ ممکن ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ باقی یہ بہت اچھی بات کہی گئی کہ بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا، یہ ہم سب کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم کب کب بے وقوف بنتے رہے ہیں کیونکہ نوازشریف تو بہت سالوں سے ہے، اس کے کئی مقدمات اسی عدالت میں چلتے رہے ہیں، تو کون کون بے وقوف بنتا رہاہے یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے، یہی جج ان (نوازشریف) کے پاس بحال ہونے کیلئے جاتے تھے شاید ان کو تب یہ نہیں پتہ ہوگا( کہ نوازشریف کرپٹ ہیں)۔ عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ ہمیں تویہ اندازہ ہے کہ یہاں سیاست دان صاف ستھرے نہیں ہیں ہم اتنے بے وقوف نہیں ہے، مگر ہمیں اتنے بھی بے وقوف نہیں ہیں کہ یہ معلوم نہ ہوکہ انہوں بددیانت ہونے پر نکالا گیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر سے پوچھا گیا کہ جج صاحب نے فیصلے میں ایک شعر بھی لکھا ہے اس پر کیا کہیں گی؟ تو انہوں نے جواب دیاکہ ہاں، سب علامہ اقبال بن گئے ہیں۔