بحریہ گالف سپریم کورٹ میں
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ نے مری میں جنگلات کی کٹائی او ر غیر قانونی ہاﺅسنگ سوسائیٹیز کیخلاف از خود نوٹس کیس میں پنجاب حکومت کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس غیر تسلی بخش قراردیتے ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ عدالتی پابندی کے باوجود ہاﺅسنگ سوسائیٹیز کی منظوری کے لیے حکام کی جانب سے جاری کئے گئے سرکولرز،نوٹیفیکیشز،پرائیویٹ زمینوں کی دستاویزات پر مبنی تفصیلی رپورٹ27نومبرتک عدالت میں پیش کی جائے ۔ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں عدالت عظمی کے دورکنی بنچ نے منگل کو کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو صوبائی حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی ، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ حکومت اور اعلی عہدیداران و ذمہ داران دیگر امور میں مصروف ہیں، مری میں پانی کے قدرتی چشموں پر بھی تعمیرات کی گئی ہیں، جنگلات کا کسی کو خیال نہیں، قدرتی ماحول تباہ ہو رہا ہے ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا ہے ، اس دوران کامنرز ہاﺅسنگ سوسائٹی کے وکیل اعتزاز احسن نے کہاکہ اس مقدمہ میں ان کے موکل کا بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے کیونکہ تعمیرات کا تمام کام بند ہوچکاہے اور ساڑھے 9ہزار ایکڑ پر مشتمل اس منصوبہ میں مزدوروں ، تکنیکی عملہ اور انجینئرز سمیت بھاری مشینری کام کررہی تھی ۔ اعتزاز احسن نے کہاکہ جس زمین پر یہ ہاﺅسنگ سوسائیٹی تعمیر ہورہی ہے وہ پرائیویٹ زمین ہے اور یہ ایک عالمی منصوبہ ہے جس میں عالمی معیار کاایک ہوٹل اور بحریہ گالف سٹی بنایاجا رہا ہے اس سوسائٹی نے کسی سرکاری زمین پر تجاوزات نہیں کیں ۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے استفسار کیا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہاں تجاوزات نہیں ہیں، عدالت میں یہ ثابت تو کریں کہ یہ زمین آپ کے موکل کی ہے، پراپرٹی کی دستاویزات دکھائیں۔ اعتزازاحسن نے کہا کہ صوبائی حکومت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سوسائٹی نے کسی زمین پر تجاوزات نہیں کی ہیں انہوں نے گوگل کا نقشہ دکھاتے ہوئے کہا کہ ایک کونے میں صرف 30کنال زمین پر تجاوزات کی نشاندہی کی گئی ہے ، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ گوگل نقشہ سے نہیں بلکہ محکمہ مال/ریونیوریکارڈ سے زمین کی ملکیت ثابت ہونی چاہیئے ہم کسی فرد کے خلاف نہیں، اگر کوئی چیز درست ہے تو ہم منع نہیں کرتے لیکن معاملات ظاہر ہونے چاہئیں، اس دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے رپورٹ پڑھتے ہوئے تصدیق کی کہ 30کنال زمین پر بحریہ گالف سٹی نے تجاوزات کر رکھی ہیں جن کو گوگل نقشہ میں سرخ نشانات سے نمایاں کیا گیا ہے ، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اگر یہ علاقہ ویلج ٹاﺅن کا ہے تو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا اس علاقہ میں بلند عمارتوں کی تعمیرات کی جاسکتی ہیں یا نہیں، اس پراپرٹی کااصل ریکارڈ عدالت کو دکھایا جائے، عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ یہ علاقہ دو موضعات” سنگیترہ اور مانگا “میں واقع ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ جب تک اس علاقے کے بارے میں مکمل تصویر عدالت کے سامنے نہیں آتی ہم کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے اور نہ ہی کوئی حکم جاری کرسکتے ہیں ، عدالت کے طلب کرنے پر کمشنر راولپنڈی اور چیف کنزرویٹو جنگلات روسٹرم پر آئے تو جسٹس اعجازافضل خان نے ریونیوڈپارٹمنٹ سے متعلق چار،پانچ قوانین کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کمشنر تو ضلع کے ایک ایک انچ کا محافظ ہوتا ہے، اس علاقہ میں عوامی پراپرٹی پر کس طرح غیر قانونی تعمیرات جاری ہیں ؟جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیاآپ عدالت کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں تو کمشنر نے کہاکہ وہ تحریری طور پر ان سوالات کا جواب دینگے ۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ اس علاقے میں تعمیرات پر پابندی ہے، کمشنر سب سے اہم شخص ہوتا ہے، آپ سوسائٹی کے گروز سے نکل آئیں، صرف دفاتر میں بیٹھ کر فائلوں پر دستخط کرنا آپ کا کام نہیں، آپ نے تمام معاملات کو گہرائی سے دیکھنا ہوتا ہے، عوامی پراپرٹی کا تحفظ کرنا تمہاری ذمہ داری ہے ، فاضل جج نے چیف کنزرویٹو فاریسٹ سے کہاکہ عدالت کو گوگل کے نقشے نہیں بلکہ ریونیوڈپارٹمنٹ کے نقشے چاہئیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ دسمبر کے پہلے ہفتہ تک وقت دیا جائے تمام ریکارڈ فراہم کردیا جائے گا ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ان کے موکل کا بہت نقصان ہوگا اتناوقت نہ دیا جائے، انہوں نے کہاکہ سوسائٹی کے پاس تمام نوٹیفیکیشن موجود ہیں ۔ عدالت نے کہاکہ اس صورتحال میں کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا ، عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں ریکارڈ جمع کرانے کی مہلت دے دی اور سماعت 27 نومبر تک ملتوی کردی