پاکستان

ریاست کے اندر ریاست

دسمبر 7, 2017 2 min

ریاست کے اندر ریاست

Reading Time: 2 minutes

سینٹ کی قائمہ کمیٹی فنکشنل برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں بلوچستان کے لاپتہ افراد کے معاملے پر بحث ہوئی تو کمیٹی کے ارکان اس بات پر متفق ہوگئے کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے والوں کا محاسبہ کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ سینٹر نسرین جلیل کی زیرصدارت اجلاس میں فرحت اللہ بابر، سحرکامران، مفتی عبدالستار اور جہانزیب جمالدینی موجود تھے۔ بلوچستان کے چیف سیکرٹری کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی۔ کمیٹی کے ارکان نے لاپتہ افراد کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا، جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں کام کرنے والے لاپتہ افراد کمیشن کے بارے میں سینٹ کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، یہ کمیشن مکمل ناکام رہا ہے۔
کمیٹی کے ارکان نے سفارش کی کہ چونکہ لاپتہ افراد کمیشن اپنی چھ سال کی مدت مکمل کر چکا ہے اس لیے ختم کیا جائے۔ کمیٹی کے تمام اراکین نے اتفاق کیا کہ کمیشن مکمل ناکام رہا، نیا کمیشن بنایا جائے جس میں تحقیقاتی ماہرین کو شامل کیا جائے۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ بلوچستان میں بازیاب ہونے والے افراد کو کمیٹی کے سامنے بلایا جائے گا اور ان کیمرا اجلاس میں ان سے پوچھا جائے گا کہ لاپتہ کرنے میں کون سی ایجنسیاں ملوث تھیں جس کے بعد خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کو کمیٹی کے اجلاس میں طلب کیا جائے گا۔
کمیٹی کے ارکان فرحت اللہ بابر، نسرین جلیل اور جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست کا تصور ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ارکان نے کہاکہ ہم برملا اظہار نہیں کرسکتے وگرنہ ہم سب جانتے ہیں کہ لوگوں کو اٹھانے والے طاقتور افراد کون ہیں۔ انہوں نے کہاکہ خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کو عدالتیں بلا چکیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا، کمیٹی کے ان کیمرا اجلاس میں خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں بلایا جائے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ جئے سندھ قومی محاذ اور بلوچستان کے لاپتہ افراد کے ورثا کو بھی بلا کر سنا جائے گا۔ سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہاکہ یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ ریاست کے اندر ریاست موجود ہے، سوات میں سینکڑوں لوگ لاپتہ تھے، انہی خفیہ اداروں سے پوچھا تو جواب آیا کہ اگر لاپتہ افراد کو سامنے لایا گیا تو قانونی سوال پیدا ہوں گے کہ کس طرح حراست میں رکھا گیا، خفیہ اداروں کو اس سے بچانے کیلئے ’ایکشن ان ایڈ‘ کا قانون بنا کر تحفظ دیا گیا، اس قانون سے صرف اتنا فائدہ ہواکہ لاپتہ افراد کو حراستی مراکز میں لے آیا گیا مگر آج تک ان افراد کی تعداد سامنے آسکی ہے اور نہ ان کا قصور بتایا گیا ہے۔
کمیٹی کے ارکان نے کہاکہ خفیہ ادارے ایکشن ان ایڈ کے قانون کے سہارے اس مسئلے کو حل کریں، یہ مزید نہیں چلنا چاہیے۔ اگر امریکا حراستی مراکز بند کرسکتا ہے تو پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں ایسا کیوں نہیں کرسکتیں۔ کمیٹی نے جسٹس منصورکمال لاپتہ کمیشن رپورٹ عام کرنے کی سفارش کی اور بلوچستان سے لاپتہ مولانا ابوتراب کا سراغ لگانے کی ہدایت کی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے