بھینس والا اسکول بھی ہے، چیف جسٹس
Reading Time: 2 minutesپی ایم ڈی سی کیس میں چیف جسٹس کے اہم ریمارکس سامنے آئے ہیں، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اگر کوئی میڈیکل کالج معیار پر پورا اتر رہا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہم میڈیکل کالج سسٹم کو درست کرنا چاہتے ہیں، میڈیکل کالجز سسٹم کو تباہ نہیں کرنا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پورے ملک میں ایک کتاب، ایک بستہ اور ایک وردی/یونیفارم ہو، چیف جسٹس نے کہا کہ میں بات کرتا ہوں اخبار والے سرخی لگا دیتے ہیں، ہم خود معصوم بچوں میں تفریق کر رہے ہیں، ہمارے بچوں اور عام آدمی کے بچوں کے نظام تعلیم میں تفریق ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ نظام تعلیم میں یکسانیت ہونی چاہیے، اے لیول کرنے والے بچے بھی محنتی ہیں، چاہتے ہیں یکسانیت کی بنیادوں پر نظام تعلیم ہو، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ریاست آئین کے تحت اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے، ہم ایک دن میں سب کچھ تبدیل نہیں کرسکتے، آہستہ آہستہ چیزوں میں بہتری لائیں گے، آرٹیکل 25 اے کہتا ہے 5 سال سے 16 سال تک کے بچوں کو تعلیم دینا ریاستی زمہ داری ہے، کیا ریاست تعلیم کی فراہمی سے متعلق فرائض سرانجام دے رہی ہے _
وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ سری لنکا میں شرح خواندگی 99 فیصد ہے _ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سکول بنا ہوا تھا لیکن وڈیرے نے اسے چلنے نہیں دیا، نظام تعلیم کیلئے ہمارے قانون بنانے والوں کو کچھ کرنا ہوگا، میں تعلیم کیلئے لوگوں کو اکھٹا کرنے لگا ہوں، ہم مقدمات میں تاخیر کو ختم کر کے میں بہتری لائیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ 1962 میں جس مقدمے کو دائر کیا گیا اس کی سماعت 30 جنوری کو سپریم کورٹ میں ہوگی، ڈاکٹر عاصم حسین کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ پاکستان میں تین کروڑ بچے سکول نہیں جاتے، چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو جو نقصان ہوا وہ ہماری وجہ سے ہے، ملک کو نقصان پہنچانے میں معصوم بچوں کا کوئی قصور نہیں، پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، وہ تعلیم کیلئے کوشش کررہا ہوگا، بچوں کو دینے کیلئے تعلیم سے بہتر کوئی زیور نہیں، بہتر نظام تعلیم سے ہم اپنے مسائل کو کم کرسکتے ہیں، نظام تعلیم میں بہتری کے باعث قانون کی حکمرانی ہوگی، بچوں کو تعلیم کی فراہمی کیلئے قانون بنانے والوں کو کوشش کرنی چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایسا اسکول بھی ہے جس میں بھینس بندھی ہوئی تھی، اس پر نوٹس لیا ہے _