شاہ رخ جتوئی ساتھیوں سمیت گرفتار
Reading Time: 4 minutesسپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں سول سوسائٹی کی درخواستوں کو ازخود کارروائی میں تبدیل کرتے ہوئے ملزمان شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور اور سجاد تالپور کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے جس کے بعد تینوں کو سپریم کورٹ سے ہی حراست میں لے لیا گیا ہے ۔ عدالت نے ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول فہرست میں شامل کرنے کا حکم بھی دیا ہے تاکہ ملک سے فرار نہ ہو سکیں ۔ عدالت نے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے کیس دوبارہ سندھ ہائیکورٹ کو بھیج دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کو نیا بنچ تشکیل دے کر دو ماہ میں فیصلہ کرنے کیلئے بھی کہا ہے۔
پاکستان ۲۴ کے نامہ نگار کے مطابق کراچی میں قتل کیے گئے شاہ زیب کے والدین کی صلح کے بعد ملزمان شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی ضمانتوں پر رہائی کے بعد سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ کے سامنے ملزم شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے بتایاکہ الزام ہے کہ ایک فائر شارخ جتوئی نے ایک سجاد تالپور نے مارا ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیس کے حقائق میں یہی چیز سامنے آئی ہے، صلح ہونے کے بعد ملزمان کا مقتول کے پیچھے جانے کا کیا تعلق ہے؟۔ وکیل نے بتایاکہ ملزمان تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے پاس پستول تھا، مگر ہوا میں فائر کیے، دوسری طرف مقتول بھی ڈی ایس پی کا بیٹا تھا۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیاتھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو آزادی سے فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے کئی مقدمات میں دہشت گردی کی دفعات ہٹانے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کئی ایسے مقدمات ہیں جن میں ہائیکورٹ نے دہشت گردی کی دفعہ ہٹائی مگر سپریم کورٹ نے دوبارہ لگانے کا فیصلہ دیا۔ وکیل نے کہاکہ شاہ زیب قتل نہیں دن دہاڑے گورنر کو 32 گولیاں مارنا دہشت گردی ہے۔
سپریم کورٹ سے اے وحید مراد کے مطابق جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے معاملہ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو بھجوایا تھا۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ امیر آدمی کا بیٹا ہونا کوئی جرم نہیں، شاہ زیب بھی ڈی ایس پی کا بیٹا تھا جس نے پہلے تھپڑ مارا، مقتول کے اہلخانہ سے صلح ہو گئی ہے اس لیے زیادہ بات نہیں کروں گا، عدالت نے ممتاز قادری کیس میں دہشت گردی کی دفعات درست عائد کیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے کسی کیس کا نام نہیں لیا۔ جسٹس کھوسہ نے پوچھاکہ کیا سپریم کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ٹرائل کا حکم دیا؟ کیا ٹرائل کورٹ یا ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے؟ ۔ وکیل کھوسہ نے کہاکہ سو موٹو میں ملزمان کو فریق ہی نہیں بنایا گیا تھا، اب اٹھارہ سال کے لڑکے کے خلاف 460 درخواستیں دائر ہوگئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ملزم 18سال کا نہیں بڑا لڑکا ہے ۔ کیا ملزم نے وکٹری کا نشان خوشی میں بنایا تھا؟۔ وکیل کھوسہ نے کہا کہ وکٹری نشان بچے کولے ڈوبا ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وکٹری کا نشان گاڑی میں سے بھی دکھا رہا تھا ۔ وکیل کھوسہ نے کہاکہ سیاستدان کرپشن پر بھی وکٹری کانشان بناتے ہیں ۔
شاہ زیب کو قتل کرنے والے شاہ رخ جتوئی نے عدالت میں کہاکہ وکٹری کانشان بچپنے میں بن گیا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے ایک ملزم کو کرپشن پر گرفتار کرنے کاحکم دیا تھا، پہلے ملزم وکیلوں کے کمرے میں چھپ گیا 4 گھنٹے بعد باہر نکلا تو گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کیمرے دیکھ کر وکٹری کا نشان بنانے لگا ۔ چیف جسٹس نے پوچھاکہ کیا دہشت گردی کے مقدمات میں راضی نامہ ہوسکتاہے؟ ۔ وکیل کھوسہ نے کہاکہ شواہد نہ ہوں توٹرائل کورٹ ازخود نوٹس کے باوجود بری کرسکتی ہے ، 5سال شاہ رخ جتوئی کو ڈیتھ سیل میں رکھاگیا، نگران جج شاہ رخ جتوئی کودیکھنے خود جاتے تھے، خطرناک قیدی قرار دے کاشاہ رخ جتوئی کو امتحان بھی نہیں دینے دیا گیا۔ جسٹس کھوسہ نے کہاکہ درخواست گزاروں کا متاثرہ فریق نہ ہونا الگ بات ہے کیا عدالت ملزمان کی بریت کا ازخود نوٹس نہیں لے سکتی ؟۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ ۶ازخود نوٹس کا خیرمقدم کروں گا ۔ شاہ رخ جتوئی کے ساتھ ظلم ہوا ہے ۔ چاہتاہوں سپریم کورٹ کیس کا جائزہ لے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت سوموٹو میں پورے کیس کا جائزہ نہیں لے گی ۔ عدالت کو آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا بھی اختیار ہے ۔ ہائی کورٹ کے اختیارات استعمال نہیں کریں گے ۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل سے پہلے کا حکم حتمی نہیں ہوتا ۔ اگر عدالت نے ایسی مثال قائم کی تو نظام انصاف جھٹکے سے گرجائے گا ۔ ہائی کورٹ نے ابھی شاہ رخ جتوئی کی اپیل پر سماعت نہیں کی ۔ ججز نے درست فیصلہ نہیں کیا تو ذمہ داری ہماری نہیں۔ یہاں این جی اوز والے آئے ہیں ۔ چییف جسٹس نے کہا کہ این جی اوز اور سول سوسائٹی سے کوئی غرض نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو فیصلے ٹھیک کرنے کا بھی اختیار ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ہائی کورٹ کے اختیارات استعمال نہیں کریں گے۔ سول سائٹی کو ایسے اختیارات نہیں دے سکتے ۔ فوجداری اور دہشت گردی کے مقدمات میں ہر کسی کیلئے اپیل کا دروازہ کھولا تو بلیک میلنگ ہوسکتی ہے مگر یہ فوجداری نہیں آئینی معاملہ ہے ۔ عدالت کے ازخود نوٹس کے اختیار پر کوئی قدغن نہیں ۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ فی الحال عدالت نے سو موٹو نہیں لیا ۔ عدالت غیرمتعلقہ افراد کے فریق بننے پر واضح فیصلہ کرے ۔ ازخود نوٹس ہوا تو اس سے متعلقہ دلائل دوں گا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متاثرہ فریق کے معاملے پر آپ کے دلائل میں کافی وزن ہے ۔ لطیف کھوسہ نے سول سوسائٹی کے رہنماوں کے عدلیہ مخالف بیانات عدالت میں پیش کیے ۔ بیانات کی سی ڈیز پیش کی گئیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکیل کھوسہ سے کہا کہ یہاں سول سوسائٹی کا ٹرائل نہیں ہو رہا ۔
شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سراج تالپور اور سجاد تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل میں کہا کہ کیامیڈیا کے معاملہ اٹھانے پر دہشت گردی کی دفعات لگ سکتی ہیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میڈیا کی خبر پر نوٹس ہو سکتا ہے فیصلہ نہیں ۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت ہمیشہ قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے ۔