سہولت کار کیسے بچے؟
Reading Time: 4 minutesپاکستان 24 اسپیشل رپورٹ
راﺅ انوار پولیس افسر تھا، پھر اس نے کچھ قوتوں کیلئے انسانوں کا قتل شروع کیا ۔ پاکستان میں کچھ قوتوں کے لئے شہریوں کے حقوق ایک مذاق اور ان کی جان کی اہمیت نہیں ۔ درجنوں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے راﺅ انوار کے سر پر کس نے کب، کیوں اور کیسے ہاتھ رکھا، یہ الگ کہانی ہے، کوئی لکھے گا اور شاید کبھی لکھی ہی نہ جائے ۔
مفرور پولیس افسر کا عدالت میں پیش ہونا وہ کہانی ہے جس کے کچھ سرے ہاتھ لگے تو ٹکڑے اکھٹے کر کے تصویر بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تیرہ جنوری کو ملیر کے علاقے میں جعلی پولیس مقابلہ کرایا گیا تو چار دن بعد سوشل میڈیا نے نقیب محسود کے فیس بک اکاﺅنٹ اور تصاویر سے ثابت کردیا کہ نوجوان بے گناہ تھا۔ راﺅ انوار اپنی بات پر بضد رہا کہ مارے جانے والے دہشت گرد اور مقابلہ اصلی تھا۔ حکومت پر دباﺅ بڑھا تو انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔ سندھ پولیس کے افسران نے ہی مقابلے کو جعلی قرار دیا اور سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو ملزم پولیس افسر راﺅ انوار غائب ہوگیا ۔
راﺅ کے سر پر جن کا ہاتھ ہے وہ اتنے طاقتور ہیں کہ پہلے ملزم کسی انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہوا، پھر عدالت نے بلایا تو پرواہ نہ کی ۔ روپوشی کے دوران بھی مختلف ٹی وی چینلز کے نمائندوں سے رابطے میں رہا ۔ سندھ پولیس کا سربراہ عدالت کے سامنے پیش ہوتا رہا اور ناکام سے آگاہ کرتا رہا ۔ سپریم کورٹ کے تین جج پہلے تو پولیس حکام پر زور دیتے رہے مگر جب خفیہ ایجنسیوں نے بھی جواب دے دیا تو ایک طرح سے مایوسی پھیلنے لگی ۔ راﺅ انوار کے خطوط نے بہت سے لوگوں کی طرح عدالت میں بیٹھے فیصلہ سازوں کو بھی اس ’ٹھکانے‘ کا پتہ بتادیا تھا جہاں مفرور پولیس افسر کو پناہ فراہم کی گئی تھی ۔
جتنے منہ اتنی باتیں تھیں اور انگلیاں خفیہ والے بھائیوں کی طرف اٹھ رہی تھیں مگر نام لینے کا کسی میں یارا نہ تھا اس لیے سوشل میڈیا پر آصف زرداری اور بلاول ہاﺅس آسان ہدف تھا ۔ عدالت میں جمع کرائے گئے آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے جواب واضح انکار یا بے خبری پر مبنی نہ تھے ۔ راﺅ انوار کو ڈھونڈنے کیلئے عدالت کو پہلا بریک تھرو اس وقت ملا جب کراچی ائرپورٹ کی ویڈیو فوٹیج لانے کیلئے کہا گیا ۔ پاکستان 24 اسپیشل رپورٹ
اس حکم کی سندھ پولیس کے سربراہ کی جانب سے تعمیل نہ کی گئی ۔ عدالت نے وجہ پوچھی تو آئی جی اے ڈی خواجہ نے بتایا تھا کہ حساس معاملہ ہے چیمبر میں بریفنگ دینا چاہیں گے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ اگلی سماعت پر کراچی میں ویڈیو فوٹیج لاکر بریفنگ دی جائے اور سول ایوی ایشن اور ائرپورٹ سیکورٹی فورس کے سربراہوں کو حاضر کیا جائے ۔ کراچی میں عدالت لگی تو ائرپورٹ سیکورٹی فورس کے سربراہ پیش ہی نہ ہوئے اور خالی ہاتھ عدالت آنے والے سندھ پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ کراچی ائرپورٹ سے راﺅ انوار کے اسلام آباد جانے کی فوٹیج کا معیار اچھا نہیں ہے اور ان کے ہمراہ آنے والے ’بندے‘ پہچانے نہیں جا رہے۔
عدالت نے ایک بارپھر ہدایت کی کہ اسلام آباد میں اس مقدمے کو سنیں گے وہاں فوٹیج لاکر دکھائی جائیں ۔ اس سے قبل بھی کچھ مواد سامنے آچکا تھا اس لیے بالآخر انیس مارچ کو سپریم کورٹ میں کمرہ عدالت میں ابتدائی سماعت کے بعد حکم دیا گیا کہ فوٹیج بند کمرے میں دیکھی جائیں گی ۔ اسی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ راﺅ انوار خود آجائے، بصورت دیگر اس کے سہولت کاروں کو بھی نتائج بھگتنا ہوں گے ۔ پاکستان 24 اسپیشل رپورٹ
سماعت کے بعد دن ڈیڑھ بجے جب سپریم کورٹ کے ججوں کو کراچی اور اسلام آباد کے ائرپورٹس پر راﺅ انوار کے آنے جانے کی فوٹیج دکھائی گئی تو بند کمرے میں سندھ پولیس کے سربراہ، ائر پورٹ سیکورٹی فورس کے سربراہ کے علاوہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اعلی حکام بھی موجود تھے ۔ انہی فوٹیج میں دراصل ’سہولت کاروں‘ کی نشاندہی ہو رہی تھی ۔ کراچی ائرپورٹ پر راﺅ انوار کو بورڈنگ پاس جاری کرنے والے افسران کا پتہ پہلے ہی چل چکا تھا۔
اسلام آباد ائرپورٹ پر جس خفیہ ایجنسی کے پروٹوکول افسر نے راﺅ انوار کو بورڈنگ پاس جاری کرایا اور پھر امارات ائر لائن کے جہاز تک کلیئر کرایا اس کی شناخت بھی ہوگئی تھی کیونکہ فوٹیج واضح تھی ۔ طاقتور ’اعلی حکام‘ مگر ماننے کو تیار نہ تھے جس کے بعد اسی شام ایک اور سیشن رکھا گیا۔ اس بار فوٹیج میں موجود افراد کی شناخت کیلئے نادرا کو کہا گیا، قومی شناخت کارڈ بنانے والے ادارے نے ایسی ’تباہ کن‘ رپورٹ دی کہ دوسروں کی شناخت کرانے والوں کی اپنی شناخت کھل کر سامنے آگئی ۔ پاکستان ۲۴ ڈاٹ ٹی وی
اس کے بعد جب ’اعلی حکام‘ کو ملزم پیش کرنے کیلئے کہا گیا تو ایک بار پھر جواب وہی تھا کہ معلوم نہیں کہاں گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ جس ڈاکٹرائن کا آج کل ملک میں چرچا ہے اس کا بھی حوالہ دیا گیا ۔ قانون کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے بتایا گیا کہ اورکوئی راستہ نہیں ۔ راﺅ انوار کے لیے کچھ ’یقین دہانیاں‘ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم پہلا کام اس کی عدالت حاضری بتایا گیا۔ انیس مارچ کو ہی اس بات پر ’اصولی اتفاق‘ کر لیا گیا تھا کہ راﺅ انوار اکیس مارچ کو پیش ہوگا مگر آخری وقت تک کوئی بھی دوسرے پر ماضی کے تجربے کی روشنی میں اعتبار کرنے کو تیار نہ تھا ۔
اکیس مارچ کو عدالت کی راہداریوں میں تشویش، غیریقینی اور مایوسی وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ رہی تھی مگر پھر اچانک عدالت کے باہر پارکنگ میں ایک سفید کار لائی گئی اور اس میں الرجی سے بچنے والا ماسک لگائے کالی شلوار قمیص میں ملبوس مفرور پولیس افسر موجود تھا ۔ کار سے ایک ’سادہ وردی‘ والا اترا، اس کے بعد عدالت کے احاطے کا وہ دروازہ کھولا گیا جو برسوں تک وہاں آنے جانے والوں نے بھی نہ دیکھاتھا۔ یہ دروازہ عدالت کے پچھواڑے والی لوہے کی گرل میں بنایا گیا ہے ۔ عدالت کے اندر تک گاڑی کو رسائی دینے کا معاملہ پہلے ہی طے کیا جا چکا تھا۔ پاکستان ۲۴ ڈاٹ ٹی وی
قانونی ماہرین اس معاملے پر آن دی ریکارڈ بات کرنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ ماہرین اور لکھاری جو انسانی حقوق کے مسائل پر لکھتے اور سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہیں صرف اس بات پر ہی خوش ہونے کی تلقین کرتے ہیں کہ آخر کار بہت ہی پیچیدہ صورتحال میں عدالت کی کامیابی ہوئی ہے ۔ بعض وکیلوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ایسی صورتحال میں جب سہولت کاروں نے ہی ملزم کو پیش کرنے کے سارے انتظامات کرائے ہوں تو ان کے خلاف ملزم کو چھپانے کی کارروائی کیسے کی جائے اور کون کرے؟
پاکستان 24 اسپیشل رپورٹ