سپریم کورٹ میں وکیلوں کی نعرے بازی
Reading Time: 3 minutesاسلام آباد کی ضلعی عدلیہ میں پیش ہونے والے وکیلوں نے سپریم کورٹ سے مرضی کا فیصلہ نہ آنے کے بعد عدالتی احاطے میں نعرے بازی کی ہے ۔ عدالت کے باہر اسلام آباد کے وکیلوں نے شیم شیم کے نعرے لگائے ۔ یہ وکیل اسلام آباد کی ضلعی عدلیہ کے ججوں کے خلاف ہیں اور ان کو دوسرے صوبوں میں تبدیل کرانا چاہتے ہیں ۔
میڈیا کے کیمروں کے سامنے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار کے صدر نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس نے جتنے لولی پاپ دیے ہیں ان میں پہلا یہ تھا کہ انہوں نے اسلام آباد کی ضلعی عدلیہ میں موجود ججوں کو دیگر صوبوں میں بھیجنے/روٹیشن کا وعدہ کیا تھا ۔
پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق انہوں نے کہا کہ شیخ رشید کے حلقے میں الیکشن چند دن قبل جا کر مہم تو چلا سکتے ہیں مگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اس معاملے کو حل کرا سکیں، چیف جسٹس کی ناک کے نیچے کرپٹ جج بیٹھے ہوئے ہیں نہ ان کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے نہ انہیں یہاں سے دفع کیا جاتا ہے ۔
اس سے قبل عدالت کے تین رکنی بنچ کے سامنے اسلام آباد بار کے چالیس کے لگ بھگ وکیل پیش ہوئے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ روسٹرم پر چند نمائندے آ کر اپنی بات کریں باقی دوست تشریف رکھیں تاہم وکیل اسی طرح کھڑے رہے ۔ اسلام آباد بار کے صدر نے کہا کہ ضلعی عدلیہ کیلئے قانون غلط ہے ایک جج نے ساری عمر اسلام آباد میں ہی گزارنی ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ روٹیشن ہونا چاہئے مگر اس کیلئے دوسرے صوبے راضی ہوں گے تب ہی بات بنے گی۔ اگر وہ اسلام آباد کے ججوں کو لیں گے اور اپنے ججوں کو یہاں تعینات کرنے پر راضی ہوں گے تب ہی تبادلے ہو سکیں گے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق بار کے صدر نے کہا کہ حکومت نے قانون میں ترمیم کا مسودہ تیار کر لیا ہے مگر ہمیں پوچھا تک نہیں گیا، ہماری مشاورت ضروری تھی ۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا کہ ابھی تک کوئی ترمیمی مسودہ تیار نہیں کیا گیا ۔ چیف جسٹس نے وکیلوں سے کہا کہ بار کا احترام اپنی جگہ مگر سب قانون کے مطابق ہی ہوگا، ترمیم پارلیمان نے کرنی ہے ۔ سپریم کورٹ ادارہ ہے،یہ تاثر نہ دیں کہ میری وجہ سے ہوگا اس سے ادارے کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے، مجھ سے جید جج اس ادارے میں بیٹھے ہیں وہ دیکھ لیں گے ۔
وکیل ریاست آزاد نے کہا کہ اسلام آباد میں کئی دنوں سے ججوں نے ہڑتال کر رکھی ہے، ضلع بھر میں نظام انصاف جامد ہو چکا ہے ۔ پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ روٹیشن میں آئینی ایشو درپیش ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں موجود قانون کو کیسے ختم کر سکتے ہیں، اس کیلئے کوئی بنیاد تو بتائیں؟ اس کیلئے صوبائی چیف جسٹس صاحبان سے بھی مشاورت کروں گا ۔
چیف جسٹس نے وکیلوں کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ نے کچہری میں پارکنگ پر جا کر زبردستی چیمبرز بنانا شروع کر دیئے، پوسٹ آفس پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی، بظاہر ضلعی عدلیہ کے جج سمجھتے ہیں کہ ان کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے، ایک عزت و احترام کا رشتہ ہوتا ہے اس کو برقرار رکھیں، آپ نے ججوں کی گاڑیوں کا داخلہ روک دیا، احتجاج کرنے کا بھی ایک انداز ہوتا ہے اس سے تجاوز کیا جائے تو ادارے کا نقصان ہوتا ہے ۔
پاکستان ٹوئنٹی فور کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ اگر جج کو یہ خدشہ ہوگا کہ آپ جا کر اسے کہیں گے یہاں سے اٹھ جاؤ تو وہ کیسے کام کرے گا؟ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، ہم ججوں سے بھی کہیں گے ۔ وکیل نے کہا کہ پارکنگ روکنے اور قبضے کی باتیں غلط ہیں، کچھ چیزیں میڈیا بھی غلط رپورٹ کرتا ہے، ہمارے کسی ساتھی نے کسی جج کو نہیں روکا، ڈان نے بھی غلط خبر لگائی ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اس پر درخواست دیں میڈیا کے متعلقہ فورم کو بھیج کر کہوں گا کہ کارروائی کرے ۔