پروین رحمان قتل کی تحقیقات مکمل نہ ہو سکیں
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے کراچی میں قتل کی گئی سماجی کارکن پروین رحمان کے کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ سے تین ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ بابر بخت قریشی کو دو ماہ کا وقت دے رہے ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لینڈ اور واٹر مافیا کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے پروین رحمان قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
جے آئی ٹی کے سربراہ بابر بخت قریشی عدالت میں پیش ہوئے تو عدالت نے پوچھا آپ کس رینک کے آفیسر ہیں۔ سربراہ جے آئی ٹی نے جواب دیا میں ڈی آئی جی رینک کا افسر ہوں۔
عدالت نے استفسار کیاابھی تک آپ کو تحقیقات میں کیا کامیابیاں ملی ہیں۔ جے آئی ٹی کے سربراہ نے اعتراف کیا کہ کوئی خاطر خواہ کامیابی تاحال نہیں مل سکی، وقت زیادہ گزرنے کی وجہ سے جیو فینسنگ بھی ممکن نہیں، عدالت مزید ڈھائی ماہ کا وقت دے تاکہ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے کہاچھ سال پہلے ہی گزر چکے ہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں، یہ معاملہ ایک معمہ بنتا جارہا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ لینڈ اور واٹر مافیا کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ قانون ادارے اپنا کام درست طور پر نہیں کر رہے تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا پولیس ریفارمز بھی اسی لیے کیے جارہے ہیں، جو لوگ خدمت خلق کرتے ہیں ان کو مافیا نے مار دیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا یہ مافیا قانون نافز کرنے والے اداروں کی دسترس سے باہر ہیں، آپ لوگوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں.