متفرق خبریں

جسٹس قاضی کی سالانہ آمدن تین کروڑ 72 لاکھ تھی: عدالت

جون 3, 2020 4 min

جسٹس قاضی کی سالانہ آمدن تین کروڑ 72 لاکھ تھی: عدالت

Reading Time: 4 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ صدارتی ریفرنس سے قبل واقعات کا تسلسل ہے جنھیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا ،دھرنا کیس کیخلاف نظر ثانی درخواست میں یہ تک کہہ دیا گیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عہدے کو ہٹایا جائے ،اس کے بعد ایک جج کیخلاف شواہد اکھٹے کرنے کیلئے پوری حکومتی مشینری حرکت میں آگئی ۔

عدالت نے مزید کہا اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے عوامی عہدے رکھنے والوں کیخلاف کتنی شکایات پر انکوائریاں کیں اس کی تفصیل فراہم کی جائیں ۔

رپورٹ: جہانزیب عباسی

سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطاءبندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بنچ نے سماعت شروع کی تو آج بھی وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم عدالت کے سوالات کا جواب دینے میں قاصر رہے ۔ عدالت نے متعدد بار قانونی سوالات پوچھے لیکن ایڈووکیٹ فروغ نسیم جواب دینے کا وعدہ کرکے آگے بڑھتے رہے ۔ ایک موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈووکیٹ فروغ نسیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہم آپ سے سوال پوچھتے ہیں آپ اس نقطے سے چھلانگ لگا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے وفاق کا پورا مقدمہ بیرون ملک جائیداد کو ظاہر نہ کرنے سے متعلق ہے، قانون میں ملکی و غیر ملکی جائیداد کو ظاہر نہ کرنے پر انکم ٹیکس قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا پورے مقدمے میں وفاق نے جسٹس قاضی فائز عیسی پر کہیں بھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا،صدارتی ریفرنس میں کہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کرپشن کا کسی نے بھی الزام نہیں لگایا، کیا انکم ٹیکس قانون کے علاوہ کوئی اور قانون بھی ہے جس کا نفاذ ہوسکے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا ایک بات اور یاد رکھیں، بیوی، بچوں کے اثاثوں سے متعلق سربراہ سے سوال کے قانون کا نظریہ محدود ہے۔

عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ او ربچوں کی جائیداد کی اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو شکایت دینے والے شکایت کنندہ پر ساکھ پر بھی اہم سوالات اٹھائے ۔ جسٹس مقبول باقر بولے جس شخص کو عیسیٰ کے انگریزی ہجے تک معلوم نہیں اسے معلومات کیسے ملیں؟شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو تو انگریزی میں عیسیٰ کے ہجے تک معلوم نہیں،وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ کا مختصر نام کیسے معلوم ہو۔

ایڈووکیٹ فروغ نسیم نے کہا شکایت کنندہ نے کہا میں اپنا زریعہ نہیں بتاو ¿ں گا۔جسٹس مقبول باقر بولے کیا پوری حکومتی مشینری کو حرکت میں لانے سے قبل وحید ڈوگر کی جانچ کی گئی،کیا یہ دیکھا گیا وحید ڈوگر کس کے لیے کس ادارے میں کام کرتا رہا۔ایڈووکیٹ فروغ نسیم بولے سپریم کورٹ کے تین فیصلوں میں اصول طے ہے معلومات دینے والے کی ساکھ کو جانچنا ضروری نہیں۔

عدالت نے صدارتی ریفرنس پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا پورے صدارتی ریفرنس میں ٹیکس قانون پر انحصار کیا گیا، اعلیٰ عدلیہ کے جج کیخلاف ٹیکس قانون پر عمل کرنے پر اسے عہدے سے ہٹانے کا مقدمہ نہیں بنتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جج سے زیادہ اہمیت ادارے کی ہے، آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس اس وقت آتا ہے جب ادارے کی ساکھ خطرے میں ہو، دو ہزار چار میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی سالانہ آمدن تین کروڑ 72 لاکھ روپے تھی، سالانہ آمدن کا جائزہ لیں تو یہ بیرون ملک جائیداد خریدنے کیلئے کافی ہے، 2004 میں جسٹس قاضی فائز عیسی کامیاب وکیل تھے، صدارتی ریفرنس کیخلاف سنگین الزامات کا ہونا ضروری ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ بددیانتی اور بدعنوانی جیسے الزامات ہونے چاہیں، ہم ججز شیشے کے گھر میں رہتے ہیں، ہم ججز عوام کو جواب دہ ہیں، جج کیخلاف ریفرنس میں الزامات کی شدت ہونی چاہیے، اس مقدمے میں بیرون ملک جائیداد براہ راست بیوی بچوں کے نام پر ہے،جسٹس قاضی فائز عیسی پر ٹرسٹ کے زریعے ملکیت کو چھپانے کا الزام بھی نہیں ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا ہم نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف مقدمے میں واقعات کے تسلسل کو دیکھنا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیا، فیض آباد دھرنا کیس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست میں کہا گیا جج کو ہٹایا جائے، پھر جج کیخلاف شواہد اکھٹے کرنے کیلئے پوری حکومتی مشینری حرکت میں آگئی، جسٹس قاضی فائز عیسی پر غیر قانونی طریقے سے جائیداد بنانے کا الزام نہیں لگایا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسی پر بیوی بچوں کے زیر کفالت ہونے کا الزام بھی نہیں لگایا گیا۔

کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم نے پاناما کیس کا حوالہ بھی دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسی نے کسی جگہ یہ کہا بیوی بچے ان کے زیر کفالت ہیں۔

ایڈووکیٹ فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی آج منی ٹریل دے دیں مقدمہ ختم ہو جائے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے کس قانون کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ منی ٹریل دینے کے پابند ہیں۔

ایڈووکیٹ فروغ نسیم نے کہا کہ میں تمام سوالات کے جوابات دوں گا۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم آپ سے سوال پوچھتے ہیں آپ اس نقطے سے چھلانگ لگا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے جب دو ہزار اٹھارہ کی ٹیکس ایمنسی اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جج اور ان کے اہل خانہ ایمنسٹی نہیں لے سکتے۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ایمنسٹی اسکیم کا اس کیس سے کیا تعلق ہے۔

ایڈووکیٹ فروغ نسیم نے کہا ایمنسٹی اسکیم پبلک آفس ہولڈرز استعمال نہیں کر سکتا، جج پبلک آفس ہولڈر ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ نے ایسٹ ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت سے متعلق بھی سوالات کا جواب دینا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جہاں آپ نے سوالات کا جواب دینا ہے وہاں اس سوال کا بھی جواب دیں ایسٹ ریکوری یونٹ نے عوامی عہدے رکھنے والوں کیخلاف کتنی شکایات پر انکوائریاں کیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا جج کی اہلیہ اور بچوں کیخلاف ٹیکس کارروائی کا کیا ہوا ۔ایڈووکیٹ فروغ نسیم بولے ایف بی آر بطور ادارہ ڈر گیا تھا،ایف بی آر کے افسر نے کہا ہمیں عدالت میں کھڑا کر دیا جائے،ایف بی آر کے افسر نے کہا ہم مزید کارروائی نہیں کریں گے، مستعفی ہو جائیں گے۔

جسٹس مقبول باقر بولے اگر کوئی سرکاری افسر قانونی زمہ داری ادا کرنے سے انکار کرے تو کیا اس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔

عدالت نے سماعت جمعرات کو ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے