متفرق خبریں

نقیب کے قتل کو تین سال: عدالتی نوٹس کے باوجود فیصلے میں تاخیر کیوں؟

جنوری 13, 2021 2 min

نقیب کے قتل کو تین سال: عدالتی نوٹس کے باوجود فیصلے میں تاخیر کیوں؟

Reading Time: 2 minutes

کراچی میں بدنام زمانہ پولیس افسر راؤ انوار کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے والے قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی موت کو تین برس گزر گئے مگر عدالت میں کیس زیرالتوا ہے۔

جعلی پولیس مقابلے پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا جس کے بعد ملزم پولیس افسر راؤ انوار طویل عرصے تک روپوش رہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مقتول نقیب اللہ محسود کے والد سے ملاقات میں ان کو اںصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں راؤ انوار کے پیش ہونے کے بعد ان کی گرفتاری ہوئی تاہم ان کو ہتھکڑی لگائی گئی اور نہ ہی جیل میں رکھا گیا۔

راؤ انوار پولیس سروس سے ریٹائر ہوئے مگر ان کو گھر پر نظربند رکھا گیا۔ بدنام زمانہ پولیس افسر کو ‘انکاؤنٹر سپیشلسٹ’ قرار دیا گیا تھا اور ان پر 444 افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام ہے۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی ان کو پروٹوکول دیا جاتا رہا۔ اور تاحال یہ مقدمہ زیر التوا ہے۔

اس کیس میں استغاثہ کے کئی گواہ منحرف ہو چکے ہیں اور انہوں نے راؤ انوار کو ملزم کے طور شناخت کرنے سے انکار کیا ہے۔

مقدمے کی آخری سماعت گزشتہ برس اکتوبر کے اواخر میں ہوئی تھی۔

سوشل میڈیا پر اس جعلی پولیس مقابلے کے خلاف پاکستان کے لاکھوں شہریوں نے مہم چلائی جس کے بعد کئی شہروں میں مظاہرے بھی کیے گئے۔

پشتون تحفظ موومنٹ نے بھی اس پولیس مقابلے اور نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کیا جبکہ کئی دوسرے شہروں میں ریلیاں نکالیں۔

سابق صدر آصف زرداری نے جعلی مقابلوں میں شہریوں کو قتل کرنے میں ملوث پولیس افسر راؤ انوار کو بہادر بیٹا قرار دیا تھا۔

نقیب اللہ محسود کے والد اپنے جوان بیٹے کے قاتلوں کو سزا ہوتے دیکھے بغیر ایک برس قبل دسمبر 2019 میں انتقال کر گئے۔

جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ کے قتل کے دو برس مکمل ہونے پر پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین انصاف کے لیے ایک بار پھر آواز اٹھا رہے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے