ہائیکورٹ نے مارننگ شو میزبان کی شکایت پر ایف آئی اے سے کیا کہا؟
Reading Time: 4 minutesاسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ہدایت کی ہے کہ وہ سائبر کرائم قوانین کے تحت مخصوص صحافیوں کو نشانہ بنانے کے تاثر کو ختم کرے اور اس حوالے سے عدالت کو مطمئن کرے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے اختیارات کے بے جا استعمال کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں اختلاف رائے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
عدالت نے آبزرویشن دی کہ ایف آئی اے کی انکوائری، انوسٹیگیشن منصفانہ ہوتی نظر بھی آنا چاہیے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی محکمے پر ہونے والی تنقید پر شکایت کنندہ نہیں بن سکتا اور جس محکمے کو کسی کی تنقید یا الزامات سے مسئلہ ہے تو خود ایف آئی اے میں درخواست دے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ بابر بخت پیش ہوئے اور عدالت کے پوچھنے پر بتایا کہ ان کے پاس ہزاروں کی تعداد میں شکایات موجود ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو کورٹ نے بار بار کہا کہ کسی بھی شہری کو نوٹس بھیجتے ہوئے تمام قانونی تقاضے پورے کریں۔ لیکن عدالتی احکامات پر عمل نہیں ہو رہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہاں کچھ بنیادی حقوق ہیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے آپ اپنے اختیار کو احتیاط سے استعمال کریں، اس تاثر کو ختم کریں کہ ایف آئی اے سائبر کرائم کی جانب سے اختیار کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کسی شہری کو جب نوٹس کرتے ہیں اس کے اثرات ہیں یقینی بنانا چاہیے کہ سارا عمل شفاف ہو، نوٹس پر کوئی تاریخ نہیں لکھتے اور کہتے ہیں ہمارے پاس پیش ہو جائیں ایسے تو نہیں ہوتا، آپ کے کئی نوٹس معطل کیے لیکن کوئی بہتری نہیں آئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص کہتا ہے فلاں کے بارے میں کچھ کہا گیا تو کیا وہ جرم بن جائے گا ؟ جس کا وقار کسی نے خراب کیا وہ شکایت کنندہ ہو سکتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا میرے خلاف کوئی بات کرے آپ کسی اور کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر لیں ایسا نہیں ہے مجھے ہی شکایت کنندہ ہونا ہو گا۔
چیف جسٹس نے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر سے کہا کہ آپ سوسائٹی میں خوف پھیلا رہے ہیں، ایف آئی اے کا نوٹس تھریٹ ہوتا ہے، ایف آئی اے کا ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے کہ آپ نے اختیارات کیسے استعمال کرنے ہیں.
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر ایف آئی اے کے تفتیشی اپنے اختیارات کو غلط استعمال کریں گے تو یہ عدالت جرمانہ لگائے گی۔ کسی کو وجہ بتائے بغیر نوٹس کرنا اسے دھمکی اور خوفزدہ کرنا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے آپ کے ایس او پیز ہونے چاہئیں، تفتیشی افسر کو نوٹس جاری کرنے سے پہلے معاملے کی چھان بین کرنی چاہئے، جس کی ساکھ متاثر ہو صرف وہی متاثرہ شخص شکایت کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کون سا طریقہ ہے کہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر واٹس ایپ پر نوٹسز بھیجیں؟۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ شکایت کنندہ کے مطابق ستمبر 2020 میں صحافی و بلاگر بلال غوری نے ان کے آباؤ اجداد کے بارے میں غلط باتیں کہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ ‘میرے والد کے بارے میں کوئی کچھ کہے تو کیا وہ فوجداری جرم بنے گا؟۔
ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ ہم نے پورے پاکستان میں آپ کے عدالتی آرڈرز کو بھیجوا دیا ہے اس پر عمل ہورہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت توقع کرتی ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم اس حوالے سے اختیارات کے استعمال میں محتاط رہے گی۔
عدالت نے ایف آئی اے حکام کو ہدایت کی کہ صحافی و بلاگر اسد طور کو ان کے خلاف مارننگ شو کی میزبان شفا یوسفزئی کی شکایت کی کاپی فراہم کریں۔
عدالت نے قرار دیا کہ اسد طور کے خلاف شکایت پر قانون کے مطابق انکوائری کی جائے کہ کیا یہ سائبر کرائم کا مقدمہ بنتا ہے یا ہتک عزت کا معاملہ ہے اور اس کے بعد اپنی فائنڈنگ کو تحریری شکل میں لا کر فیصلہ کرے۔
ہائیکورٹ نے کہا کہ اسد طور کیس دو نیچرل پرسن کے درمیان معاملہ ہے اس میں ایف آئی اے کو ابتدائی انکوائری سے روک نہیں سکتے۔
شفا یوسفزئی کی اسد طور کے خلاف شکایت عدالت میں پڑھ کر سنائی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایف آئی اے نوٹس کے ساتھ اس شکایت کی کاپی بھی مدعا علیہ کو بھجوا دیتی تو بہتر ہوتا۔
عدالت نے کہا کہ جو شکایت پڑھ کر سنائی گئی اس پر ابھی کوئی آبزرویشن نہیں دینا چاہتے، ابھی نہیں کہنا چاہتے کہ ان الزامات کو ثابت کرنے کا بار کس پر ہے، پارلیمنٹ نے جو اختیار ایف آئی کو دیے اس پر مداخلت نہیں کریں گے۔
عدالت نے اسد طور کی ایف آئی اے کو ہراساں کرنے سے روکنے کی درخواست کو نمٹا دیا اور کہا کہ دیگر کیسز میں ایف آئی اے کو ہمیں مطمئن کرنا ہو گا۔ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ایف آئی اے صرف صحافیوں کو ٹارگٹ کر رہی ہے.
عدالت نے قرار دیا کہ اظہار رائے سے متعلق آرٹیکل 19 اور 19 اے بہت اہم ہیں، ایف آئی اے کو یہ تاثر زائل کرنا ہوگا کہ صرف صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
عدالت نے ایف آئی اے کو ایس او پیز تیار کر کے پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔ اور کہا کہ نوٹس جاری کرنے کا طریقہ کیا ہوگا، رپورٹ پیش کی جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے صاحب اب کوئی ایسا مبہم نوٹس ہمارے سامنے نہ آئے۔
پیکا قانون کے تحت اختیارات کے استعمال سے متعلق ایس او پیز طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 30 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔