میڈیا کیس: سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز کا حکم غیر فعال کر دیا
Reading Time: 3 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے میڈیا اور صحافیوں کے حوالے جسٹس قاضی فائز عیسی کے دو رکنی بینچ کا حکم غیر فعال کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد روک دیا.
عدالت نے اٹارنی جنرل اور دیگرفریقین کو نوٹس جاری کیے ہیں.
درخواست گزار عبدالقیوم صدیقی کا نام عدالت میں بار بار پکارا گیا مگر وہ موجود نہیں تھے.
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست گزار نے عدلیہ کے ادارے پر اعتماد نہ کیا اور اس طریقے سے کیس فائل کیا.
عدالت کے سامنے سپریم کورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی نے کہا کہ اس کیس میں فُل کورٹ تشکیل دیا جائے، وکیل سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم ہے.
جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے ہم اکھٹے بھی بیٹھ جائیں گے.
صحافیوں کو ہراساں کرنے پر ازخودنوٹس کے دوبارہ جائزے کی سماعت کے دوران عدالت نے سوال اٹھایا کہ ازخودنوٹس کا اختیار کس انداز میں استعمال ہوسکتا ہے.
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، وائس چیئرمین پاکستان بار اور صدر سپریم کورٹ بار کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کیے.
سپریم کورٹ نے کہا کہ صرف اس نقطے کا جائزہ لیں گے کہ ازخودنوٹس اس انداز میں ہو سکتا ہے.
پیر کو قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی خصوصی بنچ نے از خود نوٹس کے دائرہ اختیار کے تعین کے کیس کی سماعت کی۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ازخودنوٹس کا اختیار کس انداز میں استعمال ہوسکتا ہے، صرف اس نقطے کا جائزہ لیں گے کہ ازخودنوٹس اس انداز میں ہو سکتا ہے، 20 اگست کو دو رکنی بینچ نے ایک حکم نامہ جاری کیا، حکمنامہ جس درخواست پر دیا گیا وہ معاملہ زیر سماعت ہی نہیں تھا، دو رکنی بینچ نے حکومتی اداروں، وفاق اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹسز جاری کیے، حکم نامہ میں مقدمہ 26 اگست کو اسی بینچ کے سامنے لگانے کا کہا گیا، 26 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال مندو خیل پر مشتمل دو رکنی بینچ ہی دستیاب نہیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ سوال یہ ہے کیا اس معاملے کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیا جائے، 20 اگست کے حکم نامے کی ہدایات برقرار رہیں گے، فریقین صحافیوں کی حراسیت سے متعلق جوابات جمع کروائیں، فی الوقت صحافیوں کی جانب سے اٹھائے گئے اہم سوالات کو نہیں دیکھیں گے، اصل سوال از خود نوٹس لینے کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے، نئے بینچ کی تشکیل تک صحافیوں کی حراسیت کے کیس کا حکُم غیر موثر رہے گا۔
عدالت نے حکمنامے میں قرار دیا ہے کہ از خود نوٹس کے دائرہ اختیار کے تعین سے متعلق سماعت بدھ کو ہو گی، عدالت میں لکھوائے گئے تحریری حکم نامے کو حتمی نہ سمجھا جائے، حتمی تحریری حکم نامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے کہا صحافیوں کے مسائل کا اس کارروائی میں جائزہ نہیں لیں گے، دو رکنی بنچ نے صحافیوں کی درخواست پر ازخودنوٹس لیا تھا، بنچز عمومی طور پر چیف جسٹس کو ازخودنوٹس کی سفارش کرتے ہیں، موجودہ صورتحال میں کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں تھا، دو رکنی بنچ نے براہ راست درخواست وصول کرکے نوٹس لیا، بنچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے، دو رکنی بنچ نے 26 اگست کو سماعت مقرر کرنے کا حکم دیا، اگر خصوصی بنچ تشکیل دینا ہو تو چیف جسٹس دیتے ہیں، صحافیوں کی درخواست پر شفاف انداز میں کارروائی چاہتے ہیں، ایسی کارروائی نہیں چاہتے جو کسی فریق کیلئے سرپرائز ہو، عدالت سوموٹو اور مکمل انصاف کا اختیار سسٹم کے تحت استعمال کرتی ہے، ماضی میں بھی کچھ مقدمات پر معمول سے ہٹ کر ازخودنوٹس ہوئے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ صحافیوں کا کیس حساس ہے خوشی ہوئی کہ انہوں نے رجوع کیا،اس بات پر افسوس ہے کہ صحافیوں نے عدلیہ پر بطور ادارہ بھروسہ نہیں کیا،رجسٹرار آفس نے قائمقام چیف جسٹس کو معاملے سے تحریری طور پر آگاہ کیا،رجسٹرار آفس نے کہا جو انداز اختیار ہوا وہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق نہیں.
کیس کی سماعت اب 25 اگست کو ہوگی.