افغانستان کے وہ کیمرے جن کو طالبان بھی ختم نہ کر سکے
Reading Time: 2 minutesافغانستان میں 70 برس قبل متعارف کرائے گئے ’باکس‘ کیمرے بدلتے ملکی حالات کے باوجود منظر عام سے غائب نہیں ہوئے یہاں تک کہ طالبان کے پہلے دور میں تصویریں کھینچنے پر پابندی بھی ان پر اثر انداز نہ ہو سکی مگر ڈیجیٹل دور میں یہ ریٹائرڈ ہو گئے ہیں.
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کابل کے شہری حاجی میر زمان کہتے ہیں کہ باکس یا انسٹنٹ کیمرے نے ہر قسم کی جنگوں، غیر ملکی افواج کے قبضوں اور طالبان کی حکومت کا مقابلہ کیا لیکن اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے سامنے بقا کی جنگ لڑنا مشکل ہو گیا ہے۔
ویسے تو یہ فارسی زبان میں ’کمرای فاوری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن اسے میجک باکس یعنی جادوئی ڈبہ بھی کہا جاتا رہا کیونکہ تصویر کھینچنے کے چند منٹوں بعد ہی صارف کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے۔
ستر سال سے زائد عمر کے حاجی میر زمان نے’کمرای فاوری‘ کا استعمال نوعمری میں شروع کیا تھا۔ وہ لوگوں کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کھینچا کرتے تھے جو اکثر اوقات پاسپورٹ، آئی ڈی کارڈز یا دیگر سرکاری دستاویزات پر لگانے کے مقصد سے بنائی جاتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کیمرے اب ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔ میں نے بس یہ آخری کیمرا سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔‘
حاجی میر زمان نے بتایا کہ اس میجک باکس کا لکڑی کا ڈبہ کیمرے اور ڈارک روم دونوں کا کام دیتا ہے، تصویر کھینچنے سے پہلے اس ڈبے میں میں فوٹوگرافک کاغذ اور ایک محلول ڈالنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آج کل تمام فوٹوگرافر ڈیجیٹل کیمرا استعمال کرتے ہیں۔ بہت ہی کم لوگ اس کیمرے کا استعمال جانتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس کا ڈبہ کسی بھی مقامی بڑھئی سے تیار کروایا جا سکتا تھا لیکن کیمرے کے لینز بیرون ملک سے منگوانے پڑتے تھے۔