وہ جج بالکل ٹھیک جس کے خلاف مہم چلائی جائے: اٹارنی جنرل
Reading Time: 2 minutesپاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر جس جج کے خلاف سب سے زیادہ مہم چلائی جا رہی ہے تاریخ اس ٹرولنگ کو نہیں یاد رکھے گی، بلکہ جس جج کے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ جج بلکل ٹھیک ہے۔
اٹارنی جنرل جمعے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ثاقب نثار آڈیو لیک کیس میں دلائل دے رہے تھے.
درخواست گزار ایڈووکیٹ صلاح الدین احمد نے عدالت کو بتایا کہ آڈیو ٹیپ معاملے میں میں خود کو متاثرہ فریق سمجھتا ہوں نواز شریف ہو یا اللہ رکھا ہو میرا مسئلہ میرے چیف جسٹس کا کردار ہے، نوا شریف کی خواہشات یا مرضی مفاد عامہ پر حاوی نہیں ہو سکتی، یہ آئینی کاروائی ہے اور سینکڑوں مقدمات میں سول اور فوجداری مقدمات ساتھ چلتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ صلاح الدین احمد اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے دلائل کے بعد سماعت مکمل کر کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک کی فرانزک تحقیقات کرانے کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ درخواست ایک زیر التوا مقدمات سے متعلق ہے، اگر اس عدالت سے متعلق کچھ ہو تو میں خود کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اوریجنل آڈیو کس کے پاس ہے؟ جب تک اوریجنل آڈیو نہ ہو دنیا کی کوئی لیبارٹری حتمی رائے نہیں دے سکتی۔
درخواست گزار وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’آڈیو فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ کے پاس ہیں، صحافی احمد نورانی اس کی کاپی مجھے بھی نہیں دیں گے اگر یہ عدالت انہیں سمن کرے تو تب ہی آڈیو مل سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس آڈیو سے متعلق میری درخواست کسی ایک کیس سے متعلق نہیں، میرا کیس الگ ہے، اگر شریف خاندان دوسرے گراؤنڈز پر بھی بری ہو جائے تب بھی میرا کیس برقرار رہے گا۔ عوام کے ذہن میں آڈیو سے متعلق سوالات برقرار رہیں گے۔‘
ایڈووکیٹ صلاح الدین نے استدعا کی کہ ’آڈیو کی فرانزک کرائیں شاید رپورٹ یہ آجائے کہ آڈیو جعلی ہے یا مختلف کلپس جوڑ کر بنائی گئی ہے۔ اگر ایسی رپورٹ آئی تو سابق چیف جسٹس اور یہ عدالت دونوں بری ہو جائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں اصل آڈیو تک پہنچنے کا پراسیس تو شروع ہو۔‘
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے سابق چیف جسٹس کی آڈیو کا فرانزک کرانے کی مخالفت میں دلائل دیے اور کہا کہ ’ایک کیس کے لیے ہم جوڈیشیری کو تباہ کرنے میں کس حد تک جائیں گے؟ کیس عدالت میں زیر التوا ہے۔ اگر انہیں اعتماد نہیں تو خود آ کر بات کریں، ایسے ادھر ادھر سے درخواستیں نہ دلوائیں۔‘