بلوچ طلبہ پر تشدد، اٹارنی جنرل کی عدالت میں معذرت
Reading Time: < 1 minuteاسلام آباد میں احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کے خلاف مقدمے کے اندراج کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل، چیف کمشنر اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے کہا کہ اس ملک کے 74 سالہ تاریخ کے خراب گورننس کی وجہ سے ایسے واقعات ہوئے ہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچستان کے طلبہ پر پولیس کے تشدد پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بڑا ہی سنگین معاملہ ہے اور وہ وفاقی حکومت کو اس سے آگاہ کریں گے۔
وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری ایڈووکیٹ اور بلوچ طلبہ پر مقدمے کے اندراج کے خلاف درخواست گزاروں کی جانب سے عثمان وڑائچ، زینب جنجوعہ و دیگر وکلا پیش ہوئے۔
عدالتی احکامات پر ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری وزارت انسانی حقوق، آئی جی اسلام آباد پولیس اور کمشنر عدالت میں پیش ہوئے۔
سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے بتایا کہ اسی دن اسلام آباد پولیس کو لکھا تھا کہ یہ اختیارات کا غلط استعمال ہے، پرامن طلباء پر فورس کا استعمال کیا گیا۔
عدالت نے پوچھا کہ بلوچستان کے طلبہ احتجاج پر بیٹھے ہیں ان کا مطالبہ کیا ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ بلوچ طلبہ کو کلاس رومز سے نکال نکال کر ہراساں کیا جا رہا ہے، طلبہ پڑھنا چاہتے ہیں مگر تنگ کیا جا رہا ہے۔