متفرق خبریں

گرمیوں کے روزے، پیاس نہ لگنے کے لیے آزمودہ نسخہ

اپریل 1, 2022 3 min

گرمیوں کے روزے، پیاس نہ لگنے کے لیے آزمودہ نسخہ

Reading Time: 3 minutes

تمام مسلم برادری کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اللّٰہ تعالٰی نے ہمیں زندگی میں ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کی خوشیاں اور بہاریں عطاء فرما دی ہیں۔

ساتھیو، دوستو، بچو اور بچیو، ماؤں اور بہنو! سب وعدہ کریں کہ بغیر شرعی عذر کوئی روزہ نہیں چھوڑیں گے۔

چونکہ رمضان المبارک گرمی کے موسم میں نصیب ہو رہا ہے تو پیاس بہت لگے گی ، بھوک بہت ستائے گی لیکن ہم نے صبر سے کام لینا ہے۔ کیونکہ صبر کا انعام نہایت اعلٰی و ارفع ہے۔روزے کا اجر اللّٰہ تعالٰی نے خود عطاء کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خود سوچیے کہ جس کام کی مزدوری اللّٰہ تعالٰی اپنے ذمہ لے لے کہ میں خود دوں گا۔ تو کیا وہ مزدوری اس کی شان کے مطابق نہ ہو گی۔ یقیناً ہو گی۔ سب کہو سبحان اللّٰہ

سحری :

روزہ میں بھوک اور پیاس کا مقابلہ اس طرح کریں گے کہ صبح سحری میں دہی کا استعمال ضرور کریں گے۔ سالن کی مقدار کم سے کم کھائیں گے۔ یخ ٹھنڈا پانی نہیں پئیں گے اور سحری کھا لینے کے بعد سات عدد چھوٹی الائچی فی کپ کا قہوہ ضرور پئیں گے۔ دہی کھانے سے شدت کی بھوک نہیں لگے گی اور الائچی کا قہوہ پینے سے پیاس نہیں لگتی۔

افطاری:

اسی طرح افطار کے وقت اللّٰہ تعالٰی کی دی ہوئی نعمتوں پر ٹوٹ نہیں پڑیں گے تو جان لیں کہ شدید گرمی کا روزہ آپ کو کچھ بھی نہیں کہے گا۔افطار کے وقت ایک چٹکی نمک سے یا ایک کھجور سے یا دو تین چھوٹے گھونٹ پانی سے روزہ افطار کر لیں۔ اب نماز مغرب کے لیے مسجد چلے جائیں۔ نماز ادا کرنے کے بعد گھر آ کر سادہ روٹی جو بھی سالن پکا ہو کے ساتھ تناول فرما لیں۔ سالن کم مقدار میں کھائیں اور اللّٰہ تعالٰی کا شکر ادا کریں کہ اس نے روزہ کی توفیق دی۔ وقت پر نماز عشاء اور تراویح کی تیاری کریں۔ مسجد تشریف لے جائیں۔

اس طرح آپ کو روزہ کی سختی ، بھوک اور پیاس کچھ بھی نہیں کہے گی۔ حتٰی کہ شوگر کے مریضوں کے لیے بھی یہ طریقہ نہایت مفید ہے۔ ان کی شوگر کم ہو جائے گی۔ البتہ انسولین لگانے والے اپنے معالج سے مشورہ کر کے روزہ رکھیں۔

اگر آپ اس کے برعکس کریں گے۔ افطار کی گھنٹی بجتے ہی سموسے، پکوڑے، کھجوریں اور ٹھنڈے مشروبات پر ٹوٹ پڑیں گےتو یقین جانیں کہ معدہ کا ستیاناس ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔ اب آپ خود ذمہ دار ہیں جو مرضی کریں۔ یہ تجربے اور مشاہدے کی باتیں تھیں جو آپ کی نذر کر دیں۔

میں نے دیکھا:-

کہ جب افطار کا وقت قریب ہوتا ہے اس سے کچھ دیر پہلے ہی ٹھنڈے یخ مشروبات کے جگ، سموسے، پکوڑے، کھجوریں، پھل وغیرہ کی پلیٹیں کثیر تعداد میں بھر بھر کر رکھ لی جاتی ہیں اور افطار کی گھنٹی بجتے ہی کھجور سے روزہ افطار کیا اور ٹھنڈے یخ مشروب کا پورا جگ ڈِیک لگا کر خالی کردیا۔ لمبے لمبے دو چار ڈکار بالجہر لیے۔ اب سموسوں پکوڑوں اور دوسری نعمتوں پر پل پڑے، اتنا کہ نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد روٹی کے لیے گنجائش نہیں تھی لیکن عادت سے مجبور ہو کر وہ بھی کھا گئے۔ پیٹ بھر کر تَن گیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جب سونے کے لیے لیٹے تو اتنی گہری نیند آئی کہ نماز تہجد قضاء ہو گئی، تلاوتِ قرآن نہ کر سکے۔ سحری کے وقت بھاگ دوڑ کر گھر والوں نے جگایا تو بھوک نہ ہونے کے باوجود جلدی جلدی بڑے بڑے نوالے بغیر چبائے ہی معدہ کی نذر کر دئیے۔ اس سے کیا ہوا کہ ظہر کے وقت تک ہی منہ سے بدبو آنے لگی۔ منہ کا ذائقہ خراب ہو گیا۔ شام کو پھر وہی معمولات دہرائے تو پھر کیا ہوا؟

گیس رہنے لگی، معالجین کے ہاں حاضری، دواؤں کے پیکٹ اٹھائے اور سحر و افطار کے وقت دوا کھانا معمول بنا لیا۔ دو چار روز تو اچھے گزرے کہ دوا نے خوب کام کیا ہے اور دبا کر کھانے لگے۔ چند روز بعد پھر وہی گیس تنگ کر رہی ہے، اجابت با فراغت نہیں ہو رہی، اب کیا ہے کہ روزہ کو موردِ الزام ٹھہرا کر روزے رکھنا ہی چھوڑ دئیے۔
کیا یہ درست ہوا؟
نہیں نا….

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے