ارشد شریف واقعہ سے جڑے حقائق کی تہہ تک پہنچنا ضروری:ڈی جی آئی ایس پی آر
Reading Time: 3 minutesپاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹینٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ارشد شریف کے اندوہناک واقعے نے قوم کو رنج و غم میں مبتلا کر دیا،دکھ کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں،اس واقعہ سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔
جمعرات کو ڈی جی آئی ایس ایس آئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ارشد شریف نے نومبر سے سخت پروگرام کیے۔ آج بھی کئی صحافی سخت سوالات اٹھا رہے ہیں مگر وہ پاکستان میں ہی ہیں۔ارشد شریف کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ پانچ اگست کو خیبر پختونخوا کی حکومت نے ارشد شریف کے حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کیا۔ یہ الرٹ وزیراعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر جاری کیا گیا۔
یہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا تاکہ وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز گل کے متنازع بیان کے بعد تفتیش میں ثابت ہو کہ اے آر وائی کے سلمان اقبال نے عماد یوسف کو ہدایات دیں کہ ارشد شریف کو جلد از جلد پاکستان سے باہر بھجوا دیا جائے،اس کے بعد سے متواتر سے یہ بیانیہ بنایا گیا کہ ارشد شریف کو بیرون ملک قتل کر دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ دس اگست کو ارشد شریف پشاور ایئر پورٹ سے دبئی کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کو خیبر پختونخوا حکومت نے مکمل پروٹوکول فراہم کیا۔ اداروں نے اُن کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اگر حکومت چاہتی تو ایف آئی اے کے ذریعے روک سکتی تھی۔
کسی نے سرکاری سطح پر نکلنے سے مجبور نہیں کیا۔ پھر وہ کون تھے جنہوں نے اُن کو کینیا بھجوایا؟اس سوال کا جواب ملنا چاہیے۔
ارشد شریف کی وفات کی خبر سب سے پہلے کس نے کس کو دی؟کیا واقعی یہ شناخت کی غلطی تھی یا پھر ٹارگٹ کلنگ تھی؟حکومت سے اس کی تحقیقات کے لیے کہا اور اس کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی خدمات بھی لی جانی چاہئیں۔
اے آر وائے کے مالک سلمان اقبال کا نام بار بار آ رہا ہے، ان کو پاکستان واپس لا کر شاملِ تفتیش کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کو مارچ میں آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں غیرمعمولی توسیع کی پیشکش کی گئی۔ میرے سامنے کی گئی۔
اگر آپ کا دل مطمئن ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو اس کی تعریفوں کے پُل کیوں باندھتے رہے؟
آج بھی پس پردہ کیوں مل رہے ہیں۔ یہ نہ کریں کہ رات کو بند دروازوں کے پیچھے ملیں اور دن کو غدار کہیں۔ قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد درست نہیں۔
فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’ہم نے ماضی کی غلطیوں کی بہت بڑی قیمت چکائی۔ اب ہم اپنی اس بات پر کھڑے رہیں گے کہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے معاملے پر انکوائری کمیشن کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ کہا کہ بلا ثبوت مفروضوں کی بنیاد پر فوج کو نشانہ نہ بنایا جائے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف جس طرح کی مہم چلائی جا رہی ہے اس لیے غیرمعمولی قدم کے طور پر یہ سمجھا گیا کہ دونوں ایک ساتھ پریس کانفرنس کریں۔بدقسمتی سے ملک میں سوشل میڈیا کے لیے کوئی قوانین و قواعد نہیں۔ حکومت اس کے لیے کوشش کر رہی ہے۔اس چیز کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق ریگولیٹ کرنا پڑے گا۔ ٹیکنالوجی سے خود کو لیس کرنا پڑے گا اور موجودہ قوانین پر عمل کرانا پڑے گا۔