اجازت کے لیے تحریک انصاف جلسے کی تاریخ اور مقام کا واضح بتائے: اسلام آباد ہائیکورٹ
Reading Time: 2 minutesاسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی جلسے کی اجازت دینے کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے جمعرات کو تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے 25 مئی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اور عمران خان کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب عدالت کو پڑھ کر سنایا۔
ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ ’یہ آدھے گھنٹے میں اپنے بیان سے مُکر جاتے ہیں۔ ہم ان پر اعتماد نہیں کرتے۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ عمومی طور پر جلسوں کی اجازت سے متعلق کیا طریقہ کار ہے ؟ جس پر بیرسٹر جہانگیر جدون نے بتایا کہ پارٹی کی اجازت ہی سے یقین دہانی کرائی جاتی ہے، تاہم انہوں نے جو ریلی کی تھی اس سے نقصان ہوا اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’جو جگہ آپ کو یہ دیں گے وہاں وہ نہیں ہو گا جو پہلے ہوا، کون اس کی ذمے داری لے گا؟‘
بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ علی اعوان نے درخواست دائر کی ہے وہ پارٹی کے رکن ہیں اور پارٹی اس کی ذمے داری لے گی۔
ایڈووکیٹ جنرل نے سماعت کے دوران کہا کہ ’بیان حلفی پر چئیرمین پی ٹی آئی کے دستخط ہونے چاہییں۔ ضلعی انتظامیہ کا نمائندہ ان کے پاس دستخط کرانے چلا جائے گا۔‘
عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل کو جلسے کی تاریخ واضح کرنے اور دیے جانے والے مقام پر امن و امان برقرار رکھنے کے حوالے سے کہا کہ ’آپ یقین دہانی کرائیں کہ امن و امان برقرار رکھیں گے۔ کسی کو اس کی ذمے داری لینی ہوگی۔ ایسا نہ ہو کہ کہا جائے کہ لاہور یا کراچی والوں نے ایسا کیا۔‘
عدالت کی جانب سے مزید ہدایت کی گئی کہ ’خیال رکھا جائے کہ سڑکیں بلاک نہ ہوں، لوگوں کو مشکلات نہ ہوں۔ احتجاج آپ کا حق ہے لیکن شہریوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔‘
ڈاکٹر بابر اعوان نے بتایا کہ پی ٹی آئی ریلی 10 نومبر کے آس پاس پہنچے گی، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے واضح بتانا ہے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد جلسے اور دھرنے کی اجازت نہ دینے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔