ہیٹ ویو سے یورپ میں سالانہ 90 ہزار ہلاکتوں کا خدشہ
Reading Time: 2 minutesیورپین انوائرمنٹ ایجنسی نے کہا ہے کہ اگر کوئی اقدامات نہ کیے گئے تو گرمی کی لہریں یا ہیٹ ویوز صدی کے آخر تک ہر سال یورپ کے 90 ہزار شہریوں کی موت کا باعث بن سکتی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایجنسی نے بتایا کہ ’موافق اقدامات کے بغیر، اور سنہ 2100 تک تین ڈگری سیلسیس گلوبل وارمنگ کے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے 90 ہزار یورپی سالانہ شدید گرمی سے مر سکتے ہیں۔‘
انوائرمنٹ ایجنسی کے تخمینے کے مطابق اگر تین ڈگری سینٹی گریڈ کے بجائے ایک اعشاریہ پانچ یا ڈیڑھ ڈگری سیلسیس کی گلوبل وارمنگ ہو تو یہ اموات سالانہ 30 ہزار تک کم ہو جاتی ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک نے گلوبل وارمنگ کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح یعنی 1.5 ڈگری سیلسیس تک رکھنے کا عہد کیا ہے۔
ایجنسی نے انشورنس کمپنیوں کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سنہ 1980 سے سنہ 2020 کے درمیان تقریباً ایک لاکھ 29 ہزار یورپی باشندے گرمی کی شدت سے ہلاک ہوئے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید گرمی کی لہروں، بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں کے پھیلنے سے آئندہ برسوں میں خاص طور پر براعظم یورپ کے جنوب میں اموات کی تعداد میں اضافے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے پیر کو کہا تھا کہ یورپ میں گرم موسم کی وجہ سے رواں سال اب تک کم از کم 15 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کا ریکارڈ رکھنے جانے کے بعد سے اب تک رواں سال جون تا اگست کے تین مہینے یورپ میں سب سے زیادہ گرم رہے، اور غیر معمولی طور پر بلند درجہ حرارت نے قرون وسطیٰ کے بعد سے براعظم یورپ کو بدترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا۔
انوائرمنٹ ایجنسی کے مطابق گرمی کے خطرے کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی سے یورپ کے شہریوں میں متعدی بیماریوں جیسے ملیریا اور ڈینگی بخار ہونے کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح گرم ہوتے سمندری پانی بھی ان بیکٹیریا کے لیے تیزی سے موزوں ہوتے جا رہے ہیں جو ہیضے کا سبب بنتے ہیں۔ خاص طور پر بحیرہ بالٹک کے ساحلوں کے ساتھ واقع علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ سکتے ہیں۔