مبینہ بیٹی ظاہر نہ کرنے پر نااہلی کی درخواست، عمران خان کے وکیل کی عدالت میں بے چینی
Reading Time: 4 minutesاسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کے خلاف مبینہ بیٹی ٹیریان کو ظاہر نہ کرنے کے مقدمے میں بیرسٹر حامد شاہ نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کے وکیل سلمان اسلم بٹ علیل ہیں۔
عمران خان کے وکیل سلمان راجہ نے عدالت کو بتایا کہ نادرا نے بائیومیٹرک سے انکار کیا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ فون کمپنی والے بھی کر لیتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے عمران خان کی رکنیت اسمبلی متعلق ریکارڈ پیش کیا۔ بیرسٹر حامد نے کہا کہ ٹیریان وائٹ متعلق الیکشن کمشنر نے ماضی میں رکن اسمبلی فاروق ستار کی درخواست پر کچھ فیصلے کیے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کا موقف ہے کہ وہ اب کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھتے تو اس پر دلائل دیں۔
سلمان راجہ نے کہا کہ محض نااہلی کا تقاضا کیا گیا ہے۔
بیرسٹر حامد علی شاہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض نصابی بحث نہیں کیونکہ عمران خان بار بار منتخب ہوئے اور سیٹیں خالی کی اور وہ ابھی بھی ایک سیٹ سے رکن اسمبلی ہیں۔
وکیل کے مطابق جو شخص ایک بار منتخب رکن کی حیثیت سے نوٹیفائی ہو جائے تو اسے ہمیشہ کے لیے رکن اسمبلی ہی تصور کیا جائے گا اور حلف کا تعلق صرف اسمبلی میں بیٹھنے اور ووٹ کا حق استعمال کرنے سے ہو گا۔
وکیل نے کہا کہ جب تک وہ حلف نہیں اٹھاتا وہ تب بھی منتخب رکن اسمبلی تصور ہو گا، راولپنڈی کے ایم پی اے چودھری نثار نے بھی حلف نہیں اٹھایا تھا مگر وہ خود کو منتخب نمائندہ کہتے تھے۔
وکیل نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس محمد عرفان پر عہدے کے حلف کی خلاف ورزی کا الزام تھا جس پر ان کے وکیل کی دلیل تھی کہ حلف کا حوالہ دینا درست نہیں کیونکہ حلف نہ اٹھا کر بھی رکن اسمبلی منتخب رکن تصور ہوتا ہے، ایک موقعے پر بیرسٹر حامد شاہ نے کہا کہ ایک فیصلہ جو انہوں نے بطور ہائی کورٹ جج دیا تھا وہ اسکا حوالہ نہیں دیں گے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ ایک اور مقدمے میں عدالت نے قرار دیا کہ منتخب سینیٹر کی چھ سالہ مدت اس کے حلف اٹھانے کی تاریخ سے نہیں بلکہ تمام سینیٹرز کی مدت کے آغاز سے شروع ہو گی، سینیٹر منتخب یا رکن اسمبلی کی تنخواہیں اور مراعات اس کے منتخب ہونے کے نوٹیفیکیشن کی تاریخ سے ملتی ہیں، سنہ ۲۰۰۷ میں شیر افگن نیازی اور ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن میں دو ریفرنس دائر ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کسی رکن اسمبلی کو نااہل قرار دے ہی نہیں سکتا۔
بیرسٹر حامد اور الیکشن کمیشن کے وکیل نے اس بات کی تائید کی، بیرسٹر حامد نے کہا کہ عمران خان کے خلاف اس خاص قانونی سوال کے ساتھ آج تک کوئی عدالتی فیصلہ نہیں آیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا اگر کسی کا حلفیہ بیان غلط بھی ہے تو کسی قانون میں اس حوالے سے سزا نہ بھی تو نہیں مقرر کی گئی محض سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں ہی ایسا ایک حلفیہ بیان ترتیب دیا گیا تھا۔
بیرسٹر حامد شاہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن ٹریبیونل کو معلومات چھپانے یا جھوٹا حلفنامہ دائر کرنے کیخلاف از خود کاروائی کا اختیار دیا گیا جس میں اس امیدوار اور اسکے اہل خانہ کے اثاثے بھی شامل ہیں اور تو اسکا انتخاب کلعدم ہو جائے گا، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا یہ تو صرف اسکا انتخاب کالعدم ہونے کی بات ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ امیدواروں کا اپنے اثاثوں اور مالیاتی بوجھ متعلق غلط اور جھوٹی معلومات جمع کرنے کیصورت میں انہیں ۱۲۰ دن کے اندر بدعنوانی کا مرتکب قرار دے کر نا اہل کیا جا سکتا ہے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ۱۲۰ دن کے اندر اگر ایکشن نہیں لیا تو پھر نہیں لیا۔
بیرسٹر حامد شاہ نے کہا کہ ۲۰۰۷ میں سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے بھیجے گئے دو ریفرنسوں پر الیکشن کمیشن نے میرٹ پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، ریفرنس میم عمران خان پر بغیر شادی کے اولاد پیدا کرنے کا الزام لگا تھا، اپنے جواب میں عمران خان نے پیرا چار میں ٹیریان وائٹ کا اسکی بیٹی ہونے سے انکار کیا تھا اور اس کی ان کی کردار کشی کی مہم قرار دیا تھا۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اسوقت یہ معاملہ صرف عمران خان کے عوامی عہدہ رکھنے یا نہ رکھنے سے متعلق ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بیرسٹر حامد شاہ محض آپ کے اس اعتراض کا جواب دے رہے ہیں کہ اس معاملے کو الیکشن کمیشن پہلے سن کر خارج کر چکا ہے۔
بیرسٹر حامد نے کہا کہ یہ معاملہ صرف رکن اسمبلی کا کہیں بلکہ بطور سربراہ سیاسی جماعت بھی عمران خان اپنے حلفیہ بیانات پر جوابدہ ہیں،
ان کا کہنا تھا کہ سنہ ۲۰۱۸ میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ آئین میں رکنیت اسمبلی یا سینٹ سے کسی رکن کی نااہلی کا اطلاق سیاسی جماعت کے سربراہ پر بھی ہوتا ہے، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پارٹی کا سربراہ پارلیمان میں موجود اپنے اراکین پر حکومت سازی اور قانون سازی اور دیگر اعلی تقرریوں متعلق بڑا اثر و رسوخ رکھتا ہے اس لئیے پارٹی کی سربراہی بھی عوامی عہدے سے کم نہیں ہوتی.
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ ان دلائل کے دوران بے چینی کا مظاہرہ کرتے رہے اور بار بار مداخلت کرنے پر چیف جسٹس نے انھیں ٹوکا اور کہا کہ آپ کو آپ کی باری پر سنیں گے۔
بیرسٹر حامد شاہ نے کمیشن میں عمران خان کے خلاف ریفرنسوں پر فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ عمران خان کے الیکشن کے بعد انکی نا اہلی کا کوئی دعوہ نہیں کیا گیا اور اس وقت آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے اس کیس ہر اطلاق کی کوئی نظیر بھی نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ نے بھی جھوٹے حلفیہ بیان پر سیٹ سے نا اہلی کے نتائج کیا بتائے۔
بیرسٹر حامد شاہ نے کہا کہ سیٹ سے محرومی اور تاحیات نا اہلی بھی اسکے نتائج ہو سکتے ہیں.
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا فیصل واوڈا کو بھی الیکشن کمیشن نے تا حیات نا اہل کیا مگر سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم کر دیا.
بیرسٹر حامد شاہ نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی استدعا کی، ایڈوکیٹ سلمان اکرم راجہ نے پھر کہا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں۔
عدالت میں سماعت بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔