عالمی خبریں

فلسطین مارچ، برطانوی حکومت اور لندن پولیس آمنے سامنے

نومبر 9, 2023 2 min

فلسطین مارچ، برطانوی حکومت اور لندن پولیس آمنے سامنے

Reading Time: 2 minutes

رواں ہفتے کے آخر میں فلسطین کی حمایت میں لندن میں شیڈول مارچ کے حوالے سے برطانوی حکومت اور لندن پولیس کے سربراہ کے درمیان اختلافات بڑھ گئے ہیں۔

حکومت نے لندن پولیس کے افسران پر الزام لگایا ہے کہ وہ بائیں بازوں کے ایشوز پر نرم رویہ رکھتے ہیں۔

آنے والے سنیچر کو لندن میں ہونے والے مظاہرے نے پولیس اور حکومت کے درمیان تنازع کھڑا کر دیا ہے۔

پولیس کے اس موقف کے بعد کہ لندن میں ہونے والے مظاہرے پر پابندی لگانے کی کافی وجوہات موجود نہیں، وزیر اعظم رشی سونک نے کہا کہ اگر مظاہرے میں کوئی گڑ بڑ ہوئی تو وہ پولیس کو جوابدہ ٹھہرائیں گے۔

حماس کے حملے کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری کی شروعات کے بعد لندن میں یورپ کے سب سے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ ہر ہفتے لاکھوں مظاہرین لندن میں جمع ہر کر اسرائیل کے غزہ پر حملے کو فوری روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ 11 نومبر کو پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے دن لندن میں بہت بڑے مظاہرے کا امکان ہے لیکن 12 نومبر کو جب عالمی جنگ کے خاتمے کے حوالے سے باضابطہ تقریبات ہوگی تو اس دن کوئی مظاہرہ نہیں ہے۔

وزیراعظم رشی سونک نے ان مظاہروں کو توہین آمیز قرار دیا لیکن لندن کے پولیس کمشنر مارک راولی کا کہنا ہے کہ مظاہروں پر کسی قسم کی پابندی کے لیے کسی ممکنہ خطرے یا شدید ہنگامے کے حوالے سے قابل اعتبار انٹیلیجنس معلومات درکار ہوتی ہے۔

پولیس کمشنر کے مطابق گذشتہ ایک دہائی سے مظاہروں پر اس قسم کی پابندی عائد نہیں کی گئی۔

برطانوی وزیر داخلہ نے فلسطین کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں کو ’ہیٹ مارچرز‘ (یعنی نفرت کا پرچار کرنے والے مظاہرین) کہہ دیا ہے۔

جمعرارت کو فرائیڈے ٹائمز میں لکھا کہ ’یہ مخصوص گروپوں خصوصا اسلامی گروپوں کی جانب سے اہمیت جتانے اور اپنی طاقت کا اظہار ہے۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’ بدقسمتی سے ایک تاثر ہے کہ جب مظاہرین کی بات آتی ہے تو پولیس افسران ذاتی پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔‘

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے