غزہ میں صحت کا نظام تباہ، ’خوف زندگی بھر بچوں کے ساتھ رہے گا‘
Reading Time: 2 minutesعالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی کے بمباری سے تباہ حال غزہ کی پٹی میں صحت کی دیکھ بھال کا نظام ختم ہو چکا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ نے جمعے کو خبردار کیا کہ علاقے کے 36 ہسپتالوں میں سے نصف اب کام نہیں کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے ٹیڈروس ادھانوم نے زمینی صورتحال کو مایوس کن قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہسپتالوں کی گزرگاہیں زخمیوں، بیماروں، مرنے والوں سے بھری ہوئی ہیں۔ مردہ خانے بھرے ہوئے ہیں، اینستھیزیا کے بغیر سرجری کی جا رہی ہے اور ہزاروں بے گھر لوگ ہسپتالوں میں پناہ لے رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صحت کا نظام گھٹنوں کے بل ہے، اور پھر بھی کسی نہ کسی طرح زندگی بچانے والی دیکھ بھال جاری رکھے ہوئے ہے۔‘
ٹیڈروس نے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر 250 سے زیادہ حملے ہوئے ہیں – جیسے کہ ہسپتالوں، کلینکوں، ایمبولینسوں اور مریضوں پر حملے، اور 7 اکتوبر کو حماس کے حملے سے شروع ہونے والے تنازعے میں اسرائیل میں ایسے 25 حملے ہوئے۔
’ان ہیلتھ ورکرز اور جن لوگوں کی وہ خدمت کرتے ہیں ان کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں وہ آلات فراہم کریں جن کی انہیں دیکھ بھال کے لیے ضرورت ہے- ادویات، طبی آلات اور ہسپتال کے جنریٹروں کے لیے ایندھن۔‘
انہوں نے امداد میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کھولی جائے اور اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی اپیل پر عمل کیا جائے۔
ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ غزہ کے بچے کن حالات سے گزر رہے ہوں گے، کیونکہ بچپن میں، میں بھی اسی چیز سے گزرا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’فائر اور گولوں کی آواز ہوا میں سیٹی بجاتی ہے۔ ان کے مارنے کے بعد دھوئیں کی بو، رات کے آسمان میں ٹریسر گولیاں، خوف، درد، نقصان- یہ چیزیں زندگی بھر میرے ساتھ رہیں۔‘
انہوں نے حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے کیے گئے ’خوفناک، وحشیانہ اور بلاجواز حملوں‘ کی بھی مذمت کی اور عسکریت پسند گروپ کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔