پاکستان

مشرف کے بیٹے کا نمبر کسی صحافی کو نہ دیا جائے: چیف جسٹس

نومبر 21, 2023 4 min
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

مشرف کے بیٹے کا نمبر کسی صحافی کو نہ دیا جائے: چیف جسٹس

Reading Time: 4 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چار رکنی سپیشل بینچ نے پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کی مقدمے کو ملتوی کرنے کی درخواست پر مایوسی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ اپیل ساڑھے چار سال تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی اور دوسری طرف مزید مہلت دینے کی استدعا کرتے ہوئے ملتوی کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا جس وقت خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سزا سنائی اور انہوں نے اپیل دائر کی اُن کی عمر 76 برس تھی۔

وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کم از کم یہ ہونا چاہیے کہ عمر رسیدہ افراد کی اپیلوں کو جلد سنا جائے تاکہ اُن کی زندگی میں ہی مقدمات کے فیصلے ہو سکیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اچھی تجویز ہے اس کو پاکستان بار کونسل کو بھیجیں تاکہ وکلا تنظیم مشاورت کر کے آگاہ کر سکے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وہ موجوہ اپیل کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کرنے کی استدعا اس لیے کر رہے ہیں کہ مرحوم مشرف کے اہلخانہ یا لواحقین سے ہدایات لے سکیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ سماعت بھی اسی بنیاد پر ملتوی کی تھی اور آپ نے کہا تھا کہ مشرف کے ورثا سے رابطے میں ہیں۔

وکیل نے بتایا کہ انہوں نے دس بار رابطہ کیا مگر اُن کو جواب نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ چونکہ انہوں نے اپیل دائر کی تھی تو عدالت وکیل کو نمائندے کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔

وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ واضح ہدایات لینے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت درکار ہے، اگر مل جائے تو مہربانی ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات دو ہی ہو سکتی ہیں یا تو اپیل کو آگے نہیں بڑھانا اور واپس لینا ہے یا پھر مقدمہ لڑنا ہے، کیونکہ اس کیس میں اب کوئی سزا نہیں ہونی یا اُس پر عملدرآمد کا معاملہ نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کو سزا سنانے کا فیصلہ اپنی جگہ برقرار ہے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ نے سزا ختم نہیں کی تھی بلکہ صرف عدالت کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف کے اس کیس کی اہمیت مستقبل کی نسلوں کے لیے بھی ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے۔ ورثا کے لیے بھی یہ کیس اس حد تک اہم ہے کہ مرحوم کی پنشن اور مراعات جڑی ہوئی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ناراض نہ ہوں مگر مقدمے ملتوی نہیں کرتے، پورا کیس اور فائلیں پڑھ کر آئے ہیں، چار ججز بیٹھے ہیں، عدالتی وقت اہم ہے، مجسٹریٹ کی عدالت کی طرح ہم سے نہ کریں۔ ایک ہفتے بعد آ کر پھر کہیں گے کہ ورثا سے رابطہ نہیں ہوا۔ تمام مقدمات میں اصول طے کیا ہے کہ مہلت دینے کے لیے سماعت ملتوی نہیں کرتے۔

چیف جسٹس نےکہا کہ ورثا اب لکھ کر دیں کہ اُن کی ہدایات کیا ہیں، کیا وہ یہ اپیل چلانا چاہتے ہیں؟ مشرف کے لواحقین کے ایڈریس دے دیں نوٹس کر دیتے ہیں۔

وکیل نے کہا کہ عدالت پرویز مشرف کے بیٹے اور اہلیہ کو دبئی کے ایڈریس پر نوٹس کرے۔ چک شہزاد کے فارم ہاؤس میں اب ملازم رہائش پذیر ہیں۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وہ پرویز مشرف کے بیٹے بلال کا فون نمبر دے دیتے ہیں، اُن کی بیٹی کراچی میں رہائش پذیر ہے مگر رابطے میں نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کافی آگے بڑھ کر مدد کر رہی ہے مگر سب کچھ عدالت پر ہی ڈالا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے عدالتی سٹاف سے کہا کہ نوٹس بھیجنے کے لیے پرویز مشرف کے بیٹے کا فون نمبر کوئی صحافی مانگے تو نہ دیا جائے۔

چیف جسٹس نے وکیل سلمان صفدر کی کی اپیل پر اُن کی ستائش کی اور کہا کہ فائل پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔

سلمان صفدر نے کہا کہ انہوں نے خصوصی عدالت کے فیصلے پر متعدد قانونی سوال اٹھائے ہیں اور محنت سے اپیل ڈرافٹ کی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے اپیل پڑھتے ہوئے سوچا کہ کسی سول وکیل کا یہ کام نہیں، پھر معلوم ہوا کہ سلمان صفدر فوجداری کیسز کے وکیل ہیں۔

عدالت نے حکمنامے میں لکھا کہ وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ وہ پرویز مشرف کے بیٹے، بیوہ اور اُن کی بیٹی سے رابطہ قائم کر کے ہدایات لیں گے۔

اس کے بعد عدالت نے مشرف کو سزا سنانے والی خصوصی عدالت کو ختم کرنے والے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کی۔

درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے پوچھا کہ اُن کا فیصلے پر کیا مؤقف ہے؟

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ وفاقی حکومت لاہور ہائیکورٹ فیصلے کو سپورٹ کرتی ہے اس کی مخالفت کرتی ہے؟

عامر رحمان نے بتایا کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو سرحد/باڑ پر بیٹھنے والی بات ہوئی کہ کسی طرف نہیں۔ کیا وفاقی حکومت میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ الفاظ کے چناؤ میں محتاط ہیں مخالفت یا حمایت کے بجائے کہیں گے کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے جس کے تحت خصوصی عدالت ختم کی گئی۔

وکیل حامد خان نے بتایا کہ ہم نے لاہور ہائیکورٹ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہباگر اپ کیس کے میرٹس پر جائیں گے تو پھر اس کا اثر اپیل پر ہوگا اس لیے آپ دائرہ اختیار تک کیس میں محدود رہیں؟

وکیل حامد خان نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے دو حکمناموں کو مد مظر نہیں رکھا گیا۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے