شوکت صدیقی کیس: آئی ایس آئی کے خلاف تقریر، عدالت سے تمام چینلز پر براہ راست نشر
Reading Time: 4 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ فون ہاتھ میں آ جانے اور یوٹیوب چینل بنانے سے کوئی صحافی نہیںبن جاتا، صحافی کا بہت اعلی درجہ ہے.
ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کا دور ہے اور اب عدالت عظمیٰ میں بھی جمہوریت آ چکی ہے اگر وہ چاہیں بھی تو مرضی کے بینچ نہیں بنا سکتے۔
جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی بنام وفاقی حکومت کے مقدمے میں اُن کے وکیل حامد خان سے مکالمہ میں کہا کہ بینچ کی تبدیلی دیگر ججز کی مشاورت سے کی گئی جو کمیٹی کا حصہ ہیں۔
حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ جمہوریت کا ذکر کیا ہے تو اس وقت جمہوریت بڑی مشکل حالات میں ہے، خدا کرے کہ جمہوریت چلتی رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’چلیں آپ کی مدد سے بڑھتی رہے گی۔‘
وکیل حامد خان نے بتایا کہ شوکت صدیقی کی یہ پٹیشن آخری بار جون 2022 میں سنی گئی تھی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس کو جسٹس عمر عطا بندیال، سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، مظہر عالم میاں خیل اور سجاد علی شاہ بھی سُن چکے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آج کل افسوس یہ ہے کہ فون پکڑ لو تو صحافی بن جاتے ہیں اور یوٹیوب چینل بنا لیتے ہیں، یہ صحافت نہیں ہے، صحافت بہت اعلیٰ درجے کی بات ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بینچ کیوں بدلا ہے اس کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں کہ اب بینچ بنانے کا معاملہ کمیٹی کے پاس گیا تھا اور وہاں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چونکہ کیس کو بہت عرصہ ہو گیا اس لیے وہ اس بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’تو ہم نے بینچ میں سے کسی کو ہٹایا نہیں، ہم کوشش کرتے ہیں کہ اتفاق رائے سے چلیں اور اگر ایسا ممکن نہیں ہو پاتا تو جمہوری انداز میں چلیں۔ کبھی ایک طرف ہو جاتا ہے اور کبھی دوسری طرف مگر اس بینچ کی تشکیل کے معاملے میں اتفاق رائے تھا کیونکہ وہ دونوں ججز بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔‘
انہوں نے وکیل حامد خان سے کہا کہ ’اب آپ کو شروع سے دوبارہ کیس چلانا ہوگا یہ وکیل کے نقصان ہوگا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی جج پر اعتراض ہے تو ابھی سے بتا دیں کیونکہ بعد میں مسئل ہو جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’آج کل ویسے بھی اعتراض کا زمانہ ہے۔‘
کیس کی سماعت کے دوران برطرف جج شوکت عزیز صدیقی کی آئی ایس آئی کے خلاف کی گئی تقریر عدالت میں پڑھی گئی اور تمام چینلز پر براہ راست نشر ہو گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آج کل جمہوریت کا زمانہ آ گیا ہے، کچھ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ موبائل فون کے ذریعے وہ صحافی بن گئے ہیں اُن کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر فیصلہ کر لیا ہے اور ہم جمہوریت کی جانب ہم گامزن ہیں۔ اور یہاں سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت شروع ہو گئی ہے۔‘
وکیل حامد خان نے کہا کہ خدا کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’قانون ہے اب میں چاہوں بھی تو مرضی کے بینچ نہیں بنا سکتا۔‘
دوران سماعت ایڈووکیٹ حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر کا متن پڑھا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ وقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کون تھے؟
وکیل نے بتایا کہ اس وقت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی تھے، شوکت عزیز صدیقی پر 4 ریفرنسز بنائے گئے، ایک ریفرنس یہ بنایا کہ سرکاری رہائیش گاہ پر شوکت عزیز صدیقی نے زائد اخراجات کیے.
ہم نے کونسل میں درخواست دی کہ ججز کی سرکاری رہائش گاہوں پر ہونے ولے اخراجات کی مکمل تفصیل دیں،کونسل نے جواب دیا جو مانگ رہے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے.
حامد خان کے مطابق ایک ریفرنس 2017 کے دھرنے کی بنیاد پر بنایا گیا، جس میں شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریمارکس دیے.
کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں عدالتی ریمارکس پر ریفرنس بنایا گیا، جسٹس جمال خان مندوخیل
شوکت صدیقی کے خلاف شکایات کنندگان کون تھے، چیف جسٹس
رہائش گاہ پر زائد اخراجات کے شکائیت کنندہ سی ڈی اے ملازم انور گوپانگ تھے، حامد خان
ایک ریفرنس ایڈووکیٹ کلثوم اور ایک سابق ایم این اے جمشید دستی نے بھیجا، حامد خان
جمشید دستی کس سیاسی جماعت کا حصہ تھے؟ جمال خان مندوخیل
مجھے کنفرم نہیں لیکن شائد آزاد حیثیت میں ہونگے، حامد خان
یعنی آپ کہ رہے ہیں جمشید دستی مکمل آزاد نہیں تھے، جسٹس جمال خان مندوخیل
راولپندی بار میں کی گئی تقریر پر جوڈیشل کونسل نے خود نوٹس لیا، حامد خان
جوڈیشیل کونسل کو کیسے پتا چلا کہ کسی جج نے تقریر کی ہے؟جسٹس جمال خان مندوخیل
ایجینسیوں نے شکایت کی تھی، حامد خان
ریکارڈ دیکھ کر بتائیں وہاں کیا لکھا ہوا ہے، چیف جسٹس
ریکارڈ میں 22 جولائی 2018 کا رجسٹرار کا ایک نوٹ موجود ہے، حامد خان
وکیل حامد خان نے کہا کہ کارروائی کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل تھا وہاں کسی کو فریق نہیں بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شوکاز نوٹس کے جواب میں دو افراد کا نام لیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی کو سنے بغیر کیسے اس کے خلاف فیصلہ دے دیں، جن افراد پر الزام ہیں اُن کا جواب بھی آنا چاہیے۔
ادارے بہت نہیں ہوتے، لوگ برے ہوتے ہیں، اداروں کو لوگ برا کرتے ہیں.عدلیہ کو برا کہیں گے تو سارے جج آ جائیں گے۔ ملک کی تباہی جو ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم شخصیات کو برا بھلا نہیں کہتے اداروں کو برا کہتے ہیں۔
’ادارے تو وہی رہتے ہیں لوگ چلاتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اب آپ کے پاس موقع ہے کہ فریق بنائیں۔ جس کے خلاف بات کر رہے ہیں اُن کو فریق بنانا ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا ا’ٓپ بار بار ایک شخص کا نام لے رہے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا معذرت خواہ ہیں۔ جس پر الزام لگا رہے ہیں اُن کو سامنے آنے دیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ اداروں کو بدنام کرنے کا فیشن چل پڑا ہے، برے لوگوں کو بچانا چاہتے ہیں۔
وکیل حامد خان کو درخواست میں جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فریق بنانے کی مہلت دیتے ہوئے برطرف جج شوکت عزیز کی فیصلے کے خلاف اپیل کل تک ملتوی کر دی گئی۔