پاکستان

چھ ججز کا خط، مشاورت کے بعد سماعت کے لیے فل کورٹ: چیف جسٹس

اپریل 3, 2024 2 min
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

چھ ججز کا خط، مشاورت کے بعد سماعت کے لیے فل کورٹ: چیف جسٹس

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران فل کورٹ کی تشکیل کا عندیہ دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے عدالتی امور میں مداخلت، اہل خانہ، رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے دباؤ ڈالنے اور مختلف طریقوں سے اثرانداز ہونے کے ایجنسیوں پر الزامات پر مبنی خط کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں سات رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

لارجر بینچ میں سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ سمیت جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہمیں اپنے فیصلوں میں دباؤ نہیں لینا چاہیے، میں تو کوئی دباؤ نہیں لیتا۔‘

چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ عجیب بات ہے کہ وکلاء مطالبہ کرتے ہیں کہ ازخود نوٹس لیں، عدالتوں کو مچھلی منڈی نہیں بنانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر بالکل سمجھوتہ نہیں کریں گے،عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوگا تو میں اور سارے ساتھی کھڑے ہوں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بار کونسلز کے نمائندگان سے بھی اس معاملے پر ملاقات کی ہے اور بار کونسلز کے وکلا کس جماعت سے ہیں اس سے ہمیں لینا دینا نہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انکوائری کمیشن سے متلعق بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم سے ہم نے ملاقات ایگزیکٹو کے معاملے پر کی تھی۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ سوشل میڈیا پر انکوائری کمیشن سے متعلق غلط باتیں کی گئیں، سابق چیف جسٹس ناصر الملک کا نام بھی انکوائری کمیشن کے لیے سامنے آیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی سے ملاقات کی اور کمیشن کی تشکیل کو بتایا کس کے بعد سابق چیف جسٹستصدق نے کہا کہ ٹی او آرز کے بعد جواب دوں گا۔

اس دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انکوائری کمیشن بنا تو تصدق جیلانی صاحب پر ذاتی حملے کیے گئے، وہ پیسوں کے لیے کمیشن کی سربراہی نہیں کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو باتیں ہوئیں مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا، تصدق جیلانی پر بے جا تنقید سن کر مجھے شرم آئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ تصدق جیلانی کے بارے میں سوشل میڈیا پر کہا گیا، اس کے بعد انہوں نے معذرت کر لی۔
’تصدق جیلانی پر ذاتی حملے بھی کیے گئے اور سوشل میڈیا سے پریشر ڈالا گیا۔ جس اندازمیں دباؤ ڈالا گیا مجھے ان کا نام تجویز کر کے شرمندگی ہو رہی تھی۔‘

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے