اہم خبریں متفرق خبریں

جولیا پاسترانا . وہ خاتون جس کو موت کے بعد بھی اذیت سہنا پڑی

مئی 2, 2024 2 min

جولیا پاسترانا . وہ خاتون جس کو موت کے بعد بھی اذیت سہنا پڑی

Reading Time: 2 minutes

یہ تصویر میں نظر آنی والی ایک خاتون ہیں، یہ الگ بات ہے کہ غیر معمولی جینیاتی بیماری کی وجہ سے اس کے سارے جسم پر بے شمار بالوں کی افزائش تھی، اس کا نام "جولیا پاسترانا” اور یہ میکسیکن ہے۔ اپنی اس جسمانی غیر معمولی خرابی کی وجہ سے اس نے اپنی ساری زندگی بے عزتی اور ناخوشگواری میں گزاری

جولیا سنہء 1834 میں میکسیکو کے پہاڑی علاقوں میں پیدا ہوئی۔ اس کی پیدائش کے بعد سے اس کے بچپن سے اس لڑکی کے جسم پر بال اس حد تک بڑھے کہ بالوں نے اس کے پورے جسم کو ڈھانپ لیا، اس لیے اس کی ماں نے اسے تھیوڈور لینٹ نامی ایک شخص کو بیچ دیا۔

تھیوڈور لینٹ نے اسے اس لیے خریدا، کیونکہ وہ سرکس چلاتا تھا، جہاں اس نے سرکس میں اس سے کام لینا تھا، جس کے نتیجے میں وہ اسے اپنے سرکس میں ایک کھیل میں بطور شیطان کے طور پر کام کرنے پر مجبور کرتا تھا، جو تماشیوں کو محظوظ کرنے کے لیے دکھایا جاتا تھا، یہ سب جولیا کے لئے شدید نفسیاتی توہین تھی، مگر اس کے باوجود یہ اس کی مجبوری تھی کہ اس نے نوکری قبول کر لی

کچھ عرصے کے بعد تھیوڈور لینٹ نے اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا، تھیوڈور کینٹ کا جولیا سے شادی کرنے کا فیصلہ بھی ایک کاروباری فیصلہ تھا، کیونکہ وہ جولیا سے ملتے جلتے بچے پیدا کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ انہیں بھی سرکس میں استعمال کرکے فائدہ اٹھا سکے۔ اس کی شادی کے بعد پہلے بچے کی پیدائش کے 48 گھنٹے بعد ہی جولیا کا انتقال ہو گیا۔

لیکن جولیا کی تکلیف وہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کے شوہر تھیوڈور لینٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کی لاش کو ایک ڈاکٹر کو بیچ دے اور پھر اسے طبی عجائب گھر میں بند کر کے اسے آدھے انسان، آدھے بندر کے نایاب کیس کے طور پر پیسے کما سکیں، اور اس نے یہ سب کیا حتی کہ جولیا کی ممی شدہ لاش کئی بار چوری بھی ہوئی اور بالآخر یہ سنہء 2005 میں ناروے سے ملی، جسے میکسیکن آرٹسٹ لورا اینڈرسن باربرا نے جولیا کی لاش کو بازیافت کروانے میں معاونت کی اور اس کی موت کے تقریبا 150 سال بعد اس کے آبائی شہر میں اس کی آخری رسومات منعقد کرائیں اور اس کے لئے ایک پروگرام بھی کیا۔

دنیا میں کچھ لوگ اس ان چاہی زندگی میں صرف زندگی میں ہی نہیں بلکہ موت کے بعد بھی اذیت سہتے ہیں ۔ جولیا پاسترانا بھی ان میں سے ایک تھی ۔
منصور ندیم

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے