عارف علوی: فوج سے مذاکرات کے لیے چیئرمین بنائے جانے کی تردید
Reading Time: 2 minutesپاکستان کے سابق صدر عارف علوی نے ایسی خبروں کو ’غیرضروری قیاس آرائیاں‘ قرار دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ اُن کو تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا چیئرمین بنایا جا رہا ہے۔
عارف علوی نے سنیچر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اس حوالے سے ایک وضاحتی بیان پوسٹ کیا ہے۔
وضاحتی بیان میں عارف علوی نے کہا ’غیرضروری قیاس آرائیاں گردش میں ہیں کہ عمران خان مجھے پارٹی کا چیئرمین بنانا چاہتے ہیں۔ میرے قائد ایسی کسی بات پر غور نہیں کر رہے اور نہ ہی ان سے ملاقات میں اس معاملے پر بات ہوئی۔ یہ قیاس آرائیاں ایک ایسی پارٹی میں الجھاؤ پیدا کرنے کی کوشش ہے جس کی قیادت کو غلط طور پر اور ناانصافی سے قید میں رکھا گیا ہے لیکن ہزاروں گرفتاریوں، جبر اور تشدد کے باوجود پی ٹی آئی متحرک ہے۔‘
سابق صدر نے مزید کہا کہ ’چیئرمین گوہر خان پارٹی کی بہت اچھی قیادت کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی موجود ہیں۔ میں اس غلط اور نان ایشو کو اس واضح تردید کے ساتھ ختم کرتا ہوں۔‘
عارف علوی نے وضاحتی بیان میں کہا کہ ’میں پاکستان کے عوام کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں کیونکہ چوری شدہ مینڈیٹ کے ساتھ ساتھ ایک جھوٹا، جذباتی اور غیرمعقول منظر نامہ بھی ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ تفرقہ انگیز اور نفرت انگیز بیانیے پھیلائے جا رہے ہیں۔ ہم ایک قوم ہیں اور ہمیں اپنی جدوجہد میں متحد رہنا چاہیے۔‘
میڈیا پر اس حوالے سے رپورٹس گردش کر رہیں تھیں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کرنے کے لیے عارف علوی کو پی ٹی آئی کا چیئرمین بنائے جانے پر غور کیا جا رہا ہے جس کے بعد سابق صدر نے بیان جاری کیا۔
عمران خان الزام لگاتے رہتے ہیں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ انہیں سائیڈ لائن کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق صدر کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد ’اہم‘ کام سونپا گیا تھا تاہم عارف علوی نے ان خبروں کی تردید کی۔
عمران خان کے ساتھ عارف علوی کی ملاقات فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد ہوئی جس میں سابق وزیراعظم کا نام لیے بغیر نو مئی کے پرتشدد واقعات کے ذمہ داروں سے معافی مانگنے کے لیے کہا گیا تھا۔
عمران خان نے اگلے دن اڈیالہ جیل میں قائم عدالت میں صحافیوں سے گفتگو میں معافی مانگنے کے آپشن کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ معافی تو اُن (عمران خان) سے مانگی جانی چاہیے۔
پاکستانی حکام کی جانب سے تشدد کے مرتکب اور اس کو بھڑکانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے اعلانات کے بعد سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا اور کچھ پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا گیا۔
پی ٹی آئی کے خلاف مبینہ کریک ڈاؤن کے دوران عارف علوی ملک کے صدر تھے اور کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی پارٹی اور پاکستان کی طاقتور فوج کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔