سلمان رشدی پر حملے کے ملزم نے اپنے دفاع میں کھڑے ہونے سے انکار کیوں کیا؟
Reading Time: 3 minutesتوہین آمیز کتاب ’شیطانی آیات‘ کے مصنف سلمان رشدی کو 2022 میں چھرا گھونپنے کے مقدمے میں انڈر ٹرائل ملزم نے عدالت میں اپنے دفاع کے لیے کھڑے ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق نیو جرسی کے شہری نے جمعرات کو اپنے دفاع میں گواہی دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد اُن کے وکلاء نے بغیر کسی گواہ کو بلائے اپنا کیس مکمل کر لیا۔
’نہیں، میں نہیں کرتا‘، 27 سالہ ہادی ماتار سے جب چوتاؤکا کاؤنٹی کے جج ڈیوڈ فولی نے پوچھا کہ کیا وہ موقف اختیار کرنا چاہتے ہیں تو اُن کا جواب تھا۔
جمعرات کے اوائل میں استغاثہ نے ایک فرانزک ماہر کو اپنا آخری گواہ بلایا، اس سے قبل سلمان رشدی سمیت دیگر گواہوں نے سات دن تک اپنی بیانات ریکارڈ کیے۔
وکلاء جمعے کو اختتامی دلائل دینے والے ہیں، جس کے بعد جیوری فیصلے کے حوالے سے اپنی مشاورت کرے گی۔
ماتار پر مغربی نیویارک کی چوتاؤکا کاؤنٹی کورٹ میں قتل کی کوشش اور قریبی چوٹاکوا انسٹی ٹیوشن پر حملے کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے جس میں 77 سلمان رشدی ایک آنکھ سے اندھے ہو گئے تھے جبکہ اُن کو کئی دیگر زخم بھی آئے۔
سٹی آف اسائلم کے بانی ہنری ریز بھی سلمان رشدی کے ساتھ دکھائی دے رہے تھے، حملے میں اُن کی آنکھ کے اوپر بھی زخم آئے۔
پورے مقدمے کے دوران ہادی ماتار جن کا تعلق و فیئر ویو، نیو جرسی سے ہے، کو اکثر نوٹس لیتے اور اپنے وکلاء کے ساتھ بات کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
کمرہ عدالت کے اندر یا باہر لاتے ہوئے کئی مواقع پر اس نے نیوز کیمروں کے سامنے ’فلسطین کو آزاد کرو‘ کے نعرے بھی لگائے۔ لیکن دفاعی وکلاء نے یہ بتانے سے انکار کر دیا تھا کہ آیا وہ اپنے دفاع میں بیان ریکارڈ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
اگرچہ ماتار کے وکلاء نے اپنے دفاع میں کسی گواہ کو بلانے سے انکار کیا، لیکن انہوں نے استغاثہ کے گواہوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کی جس کا مقصد اس بات پر شک پیدا کرنا تھا کہ آیا ہادی ماتار کا اراردہ سلمان رشدی کو قتل کرنے کا تھا، نہ کہ صرف زخمی کرنا۔ اس کی وجہ قتل کی کوشش کی سزا اور زخمی کرنے کی سزا کا اہم فرق ہے۔
وکلاء نے کہا کہ ہادی ماتار بندوق سے نہیں بلکہ چاقو سے مسلح ہو کر آیا تھا، اور سلمان رشدی چھرا گھونپنے سے بچ گئے۔ دفاع کے وکلا کے مطابق رشدی کے اپنے گواہوں نے واقعے کو ‘جھڑپ‘کے طور پر بیان کیا تھا۔
پبلک ڈیفنڈر نتھانیئل بارون نے کمرہ عدالت کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’ہم نے شروع سے ہی یہ استدلال کیا ہے کہ کم از کم ہماری رائے میں، انہوں نے قتل کے کسی بھی قسم کے ارادے کو ثابت نہیں کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر سلمان رشدی کی پبلک پروفائل نہ ہوتی تو ہادی متار کو ممکنہ طور پر کم سخت الزامات کا سامنا کرنا پڑتا۔
بارون نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ اس کیس میں مبینہ شکار کی شہرت کی وجہ سے یہ قتل کی کوشش بن گئی ہے۔‘
حملے میں سلمان رشدی کے سر، گلے، دھڑ، ران اور ہاتھ پر ایک درجن سے زائد زخم آئے۔
یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب وہ مصنفین کو محفوظ رکھنے کے بارے میں بحث میں حصہ لینے کے لیے تقریر کرنے آئے تھے۔ حملے کے بعد زخمی رشدی نے پنسلوانیا کے ایک ہسپتال میں 17 دن اور نیویارک شہر کے بحالی مرکز میں تین ہفتے سے زیادہ گزارے۔
ہادی متار کو بفیلو میں امریکی ضلعی عدالت میں ایک علیحدہ وفاقی فرد جرم پر بھی مقدمے کا سامنا ہے جس میں اس پر عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کو مادی مدد فراہم کرنے کی کوشش کا الزام لگایا گیا ہے۔