کیا عمران خان نے 9مئی کے واقعات کی مذمت کی: سپریم کورٹ
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں شامل جسٹس حسن اظہر رضوی نے سماعت کے دوران سوال کیا کہ کیا تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی؟
پیر کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے کیس میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں کرفیو لگنے پر فوج آتی تھی تو لوگ پھول پھینکتے تھے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ایک ہی دن میں جی ایچ کیو سمیت مختلف مقامات پر حملے ہوئے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری سے پوچھا کہ سابق وزیراعظم اور ایک پارٹی لیڈر کے وکیل ہیں، کیا سابق وزیراعظم نے 9 مئی واقعات کی مذمت کی ہے کہ یہ غلط ہوا؟
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا عدالت میں اپنے تحریری جواب میں مذمت کی گئی ہے؟
جسٹس حسن اظہر رضوی کے سوال پر وکیل نے جواب دیا کہ بانی پی ٹی آئی کی متفرق درخواست عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔
عذیر بھنڈاری نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے 9 مئی کی مذمت اپنی تحریری معروضات میں کی ہے۔
عذیر بھنڈاری کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ جو ذمہ دار ہیں انہیں سزا دی جائے۔
عذیر بھنڈاری نے کہا کہ مذمت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ بانی پی ٹی آئی سرکاری موقف تسلیم کرتے ہیں۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ مذمت کرنا اچھی بات ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا کوئی وزیراعظم اپنی مقررہ مدت سے زیادہ عہدے پر رہ سکتا ہے؟
عذیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ پانچ سال جے لیے آنے والا وزیراعظم چھ سال نہیں رہ سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر آپ فوجیوں کی حد تک کورٹ مارشل درست مانتے ہیں تو بات آرٹیکل 175 کے دائرے سے باہر نکل گئی، ذاتی طور پر جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہر وکیل کے دلائل مختلف ہیں سب کو اکٹھا کرنے کے ساتھ عدالتی فیصلہ بھی دیکھنا ہے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں سب مل کر ملبہ ہمارے گلے ڈالیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال ہے بینچ وکلا کےدلائل کو مکس کر رہا ہے، سلمان اکرم راجہ نے انڈیا میں کورٹ مارشل کے لیے الگ فورم کی بات کی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اُن کی نظر میں سلمان اکرم راجہ کا موقف مختلف تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت دلائل کی پابند نہیں آئین کے مطابق خود بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔
وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ فوج آرٹیکل 245 کے علاوہ سویلنز کیخلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی، اگر کوئی خفیہ اختیار فوج کو ہے تو دکھا دیں ہم مان لیں گے، سویلین حکام ہر صورت میں فوج سے بالاتر ہوتے ہیں، کمانڈنگ افسر کا ملزمان کی حوالگی لینا فوج کی سویلین پر بالادستی کے مترادف ہے۔