اہم خبریں

بلاسفیمی بزنس گینگ کیس میں جسٹس سردار اسحاق کی بہترین ’ہینڈلنگ‘

مارچ 25, 2025 3 min

بلاسفیمی بزنس گینگ کیس میں جسٹس سردار اسحاق کی بہترین ’ہینڈلنگ‘

Reading Time: 3 minutes

پاکستانی شہریوں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج کرانے والے مدعیان کے وکیل نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس ویب سائٹ فیکٹ فوکس پر رپورٹ شائع ہوئی اُس پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

پاکستان 24 کے نمائندے کے مطابق وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فیکٹ فوکس نے پہلی رپورٹ ستمبر 2024 میں شائع کی اور اُس کے لیے پولیس کے خفیہ شعبے سپیشل برانچ کی دستاویزات پر انحصار کیا۔ اسی طرح اس رپورٹ کی بنیاد پر نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے اپنی رائے دی۔

وکیل کے مطابق اسی طرح رواں سال فیکٹ فوکس نے جنوری کے آخری ہفتے میں رپورٹ شائع کی۔

عدالت کو وکیل نے بتایا کہ فیکٹ فوکس کو گزشتہ سال جنوری کی 31 تاریخ کو پاکستان مخالف ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا۔

وکیل کے مطابق اس ویب سائٹ پر پابندی عائد کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے نوٹیفیکیشن میں لکھا کہ غیرقانونی مواد کو شائع کرنے، فوج کے خلاف خبریں اور غلط معلومات کو ریاست کے خلاف استعمال کرنے پر فیکٹ فوکس کو بند کیا جاتا ہے۔

پاکستان 24 کے نمائندے کے مطابق جسٹس سردار اسحاق نے اس پر کہا کہ بہت سے لوگ اس بات سے ناراض ہوں گے مگر پابندی کے اس نوٹیفیکیشن والی زبان وہاں استعمال ہوتی ہے جہاں کوئی سچ بول رہا ہو۔

وکیل نے کہا کہ فوج کے خلاف بات کرنے والے یوٹیوب سے ماہانہ کروڑ روپے بھی کما لیتے ہیں کیونکہ عوام کو یہ بیانیہ بہت زیادہ پسند ہوتا ہے۔

جسٹس سردار اسحاق نے پوچھا کہ کیوں، حالات اس نہج پر کیوں آ گئے؟

وکیل نے جواب دیا کہ میں فوج کا وکیل نہیں ہوں، مگر فلسطین، لبنان اور یوکرین کے حالات سب کے سامنے ہیں، جس ملک کے دفاع کے لیے فوج نہ ہو اُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

جسٹس سردار اسحاق نے کہا کہ جس ملک کے عوام اس کے دفاع کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے، وہ کمزور ہوتا ہے۔

وکیل نے دلیل دی کہ فیکٹ فوکس نے عدلیہ کے خلاف بھی مہم چلائی اور ججز کے بارے میں بھی لکھا۔

جسٹس سردار اسحاق نے کہا کہ حضرت علی کا قول ہے کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔
آپ کا یہ نکتہ نوٹ کر لیا کہ یہ ویب سائٹ پاکستان میں پابندی کی زد میں ہے، مگر دُنیا بھر میں تو اس پر کوئی پابندی نہیں۔

وکیل نے کہا کہ احمد نورانی بیرون ملک ہے اور پاکستان میں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔

جسٹس سردار اسحاق نے وکیل سے کہا کہ ’آپ کا اندازِ بیان اور الفاظ کا چناؤ عدالتی ڈیکورم کے مطابق ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ تب ہوتا کہ جب کوئی ایک فریق کے وکلا سمجھتے ہیں کہ وہ عدالتی ڈیکورم سے باہر نکل کر بات کریں گے اور اس طرح انصاف کے نظام پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔‘

وکیل نے کہا کہ ’اگر ان ملزمان کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج نہ کیے جاتے اور طریقہ کار کے مطابق یہ سب نہ ہوتا تو پھر خطرہ رہتا ہے کہ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں اور گلی محلے میں ہی ایسے لوگوں کو گھسیٹ لیں۔ اگر عدالتوں نے یہ کیا تو مستقبل میں عوام پھر خود فیصلہ کرنے پر نہ آ جائے۔‘

جسٹس سردار اسحاق نے کہا کہ ’ذرا ٹھہریں، یہ آپ نے کیا دلیل دی، یہ آپ کس طرف جا رہے ہیں، یہ تو کیس ہی نہیں، کون کہہ رہا ہے کہ توہین کے معاملات میں مقدمات درج نہ کیے جائیں، یہاں تو ایسی کوئی بات نہیں کی گئی کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو اُس کے کام سے روک دیا جائے۔‘

جسٹس اسحاق کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے ماضی میں ملزمان کو مارنے کے ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ مگر یہاں کوئی نہیں کہہ رہا کہ ایف آئی اے توہین کے خلاف کسی درخواست پر مقدمہ ہی درج نہ کرے، یہ تو کیس ہی نہیں۔ مقدمہ تو موجودہ مقدمات میں سامنے آنے والے حقائق کی روشنی میں درست نتیجے تک پہنچنے کے لیے کمیشن کی تشکیل کا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اب یہ کمیشن جب بنے گا تب ہی اس کی تحقیق کر سکے گا، ’آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ یہاں اس کیس میں کمیشن بننے سے پہلے ہی اس بات کی تحقیق کروں، یہ کیسے ممکن ہے، یہاں تو درخواست ہی کمیشن بنانے کی ہے، ہم تو آئینی و قانونی پوزیشن دیکھ رہے ہیں اور اس پر دلائل سن رہے ہیں کہ کمیشن بنایا جائے تو کیوں، اور اگر نہ بنانے کا فیصلہ دیں تو کیوں.؟

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے