چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کا تقرر، جسٹس سرفراز ڈوگر کے حیران کُن ریمارکس
اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے تقرر کو چیلنج کیے جانے والی درخواست کی سماعت کے دوران حیران کن طور پر محسن نقوی کے حق میں ریمارکس دیے۔
بدھ کو درخواست گزار کے وکیل مدثر لطیف عباسی ایڈووکیٹ سے مخاطب ہو کر چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین پی سی بی کی کارکردگی عمدہ ہے۔ ملک میں کرکٹ کے مختلف ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا جا رہا ہے، اگر اُن کے تقرر کے عمل میں آئین پاکستان اور پی سی بی کے دستور کی خلاف ورزی ہوئی بھی ہے تو اس کو چھوڑ کر آگے چلیں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم اور نگران وزیراعظم ایک ہی طرح ہوتے ہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پی سی بی کے چیئرمین کے تقرر کا نوٹیفکیشن نگران وزیراعظم نے کیا؟
درخواست گزار کے وکیل مدثر لطیف عباسی نے دلائل میں کہا کہ آئین پاکستان میں وزیراعظم اور نگران وزیراعظم کی حیثیت الگ الگ بیان کی گئی ہے۔ اس طرح پی سی بی کے چیئرمین کے تقرر کا استحقاق بطور پیٹرن پی سی بی وزیراعظم کے پاس ہے نہ کہ نگران وزیراعظم کے پاس۔
دلائل کے دوران ایک مرحلے پر ایکٹنگ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے سوال کیا کہ آپ کی درخواست غیر موثر ہو چکی ہے کیونکہ ممبر بورڈ آف گورنر اب چیئرمین بن چکے ہیں۔
جس پر پٹیشنر کے وکیل مدثر لطیف عباسی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پی سی بی دستور کے آرٹیکل 7 کے مطابق بورڈ آف گورنرز میں سے ہی کوئی ممبر چیئرمین بن سکتا ہے۔ ایک شخص کا تقرر بطور ممبر ہی درست نہیں تو وہ چیئرمین کیسے ہو سکتا ہے۔
پٹیشنر کے وکیل نے مثال دیتے ہوئے جسٹس ڈوگر سے کہا کہ آپ ایکٹنگ چیف جسٹس اس لیے ہیں کیونکہ پہلے آپ جج ہیں پھر آپ ایکٹنگ چیف جسٹس بنے۔ اس مثال کے جواب میں ایکٹنگ چیف جسٹس کچھ لمحوں کے لیے حیران ہوئے پھر مسکرا کر کہنے لگے کہ ہمارے معاملے میں تو فیصلہ آگیا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے اب آپ کو تقرر سے کیا مسئلہ ہے جس پر وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مورخہ 22.01.2024 کے نوٹیفکیشن سے مسئلہ ہے جو کہ غیرآئینی و غیرقانونی ہے۔ آپ یہ نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دیں اور پیٹرن پی سی بی پندرہ منٹ بعد ہی موجودہ چیئرمین کا نیا نوٹیفکیشن جاری کر دیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اس پر چیف جسٹس نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں ان کو کہتا ہوں کہ نیا نوٹیفکیشن جاری کر دیں۔
آخر میں ایکٹنگ چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس سو موٹو کے اختیارات نہیں تو آپ اس طرح کے معاملات عدالت کے علم میں لے کر آئیں گے تو علم ہو گا کہ کہاں کہاں غیرقانونی کام اور دستور کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔