موسمیاتی تبدیلیاں، کشمیر کا خطہ کیسے متاثر ہو رہا ہے؟
ثوبان افتخار راجہ
موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے جو نہ صرف ترقی یافتہ ممالک بلکہ ترقی پذیر اور پسماندہ علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا خطہ جو کہ قدرتی حسن، گھنے جنگلات، بہتے جھرنوں، گلیشیئرز اور برف پوش پہاڑوں سے مالا مال ہے، بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہااگرچہ یہ خطہ اپنی جغرافیائی اہمیت اور خوبصورتی کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے لیکن موجودہ موسمیاتی تبدیلیاں اس کے ماحولیاتی توازن، آبی وسائل، زراعت، معیشت اور انسانی زندگی کو بُری طرح متاثر کر رہی ہیں۔
اس خطے میں سب سے نمایاں اثر درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں یہاں کے موسمی پیٹرن میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ وہ علاقے جو کبھی شدید سردی کے لیے جانے جاتے تھے، اب وہاں گرمیوں کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ برفباری کی مقدار اور دورانیہ کم ہو رہا ہے جبکہ غیر متوقع بارشوں اور خشک سالی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ نتیجتاً یہاں کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جو کہ نہ صرف مقامی آبی نظام کے لیے خطرہ ہے بلکہ نیچے کے علاقوں میں سیلابوں کا سبب بھی بن رہا ہے۔
کشمیر میں موجود نیلم، جہلم، پونچھ اور دیگر ندیاں اور دریا ان گلیشیئرز سے ہی فیڈ ہوتے ہیں۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے سے ایک طرف تو وقتی طور پر پانی کی فراوانی ہوتی ہے، لیکن طویل المدت میں یہ پانی کا بڑا بحران بننے جا رہا ہے۔ گلیشیئرز جب ختم ہو جائیں گے تو ان دریاؤں کا بہاؤ شدید متاثر ہوگا، جس سے زرعی زمینیں، بجلی پیدا کرنے کے منصوبے اور پانی پر منحصر دیگر سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ ان حالات میں پانی کی کمی کے باعث زراعت اور باغبانی جیسی معاشی سرگرمیاں ماند پڑ جائیں گی۔
موسمیاتی تبدیلیوں نے زراعت پر بھی براہ راست اثر ڈالا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں زراعت مقامی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہاں گندم، مکئی، سبزیاں، اور مختلف پھل جیسے سیب، خوبانی، آلو بخارا، اخروٹ وغیرہ پیدا کیے جاتے ہیں۔ مگر بارشوں کے غیر متوقع اور بے ترتیب نظام، فصلوں کے لیے مناسب موسم کے کم ہونے، اور کیڑوں کے حملوں میں اضافے کی وجہ سے زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ کچھ فصلیں قبل از وقت خراب ہو جاتی ہیں، کچھ کو مناسب پانی نہیں ملتا، اور کچھ علاقوں میں زمین بنجر ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال نے مقامی کسانوں کی آمدنی اور خوراک کی سیکیورٹی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
مزید برآں، جنگلات کی کٹائی اور جنگلات میں لگنے والی آگ کا رجحان بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں شامل ہے۔ خشک سالی اور گرمی کی شدت کے باعث جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس سے نہ صرف قیمتی درخت تباہ ہو رہے ہیں بلکہ جنگلی حیات بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ یہ جنگلات مقامی موسم کو معتدل رکھنے اور ہوا کی صفائی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کا نقصان پورے ماحولیاتی نظام کو عدم توازن کا شکار بنا رہا ہے۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحت ایک بڑی صنعت کے طور پر جانی جاتی ہے .
لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیاحتی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ برفباری کے موسم کا کم ہونا، موسموں کی شدت اور غیر یقینی صورتحال نے سیاحوں کی آمد پر اثر ڈالا ہے۔ سڑکوں کی بندش، لینڈ سلائیڈنگ اور شدید بارشوں کی وجہ سے نہ صرف انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے بلکہ مقامی معیشت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ اور دیگر متعلقہ شعبے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔لینڈ سلائیڈنگ یعنی زمینی تودوں کا گرنا ایک اور بڑا مسئلہ ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ شدت اختیار کر چکا ہے۔ غیر متوقع اور شدید بارشیں زمین کو کمزور کر دیتی ہیں.
جس سے اکثر علاقوں میں زمین کھسکنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف جان و مال کے نقصان کا باعث بنتے ہیں بلکہ سڑکوں، سکولوں، ہسپتالوں اور گھروں کو بھی شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ بہت سے دیہی علاقوں میں آمد و رفت کے راستے بند ہو جاتے ہیں جس سے عوامی زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔صحت کے شعبے پر بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پڑ رہے ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافہ، پانی کی آلودگی، اور مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ نے مقامی آبادی کو نئے چیلنجز سے دوچار کر دیا ہے۔ ملیریا، ڈینگی، سانس کی بیماریاں، پانی سے پھیلنے والی بیماریاں اور غذائی قلت جیسے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
طبی سہولیات کی کمی کے باعث یہ مسائل مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق عوامی آگاہی کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اکثر افراد اس بات سے لاعلم ہیں کہ ان کے روزمرہ کے طرز زندگی اور مقامی سرگرمیوں کا ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے۔ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی، کوڑا کرکٹ جلانا، پلاسٹک کا استعمال اور پانی کا ضیاع جیسے عوامل ماحولیاتی تباہی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر مقامی افراد کو ان کے طرز عمل کے اثرات سے آگاہ کیا جائے تو صورتحال کو کسی حد تک بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جیسے حساس خطے کو محفوظ بنانے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف مقامی سطح پر عوامی شعور بیدار کرے بلکہ موسمیاتی تحفظ کے لیے پالیسی سازی، جنگلات کی بحالی، جدید زرعی طریقوں کا فروغ، پانی کے ذخائر کا تحفظ، اور متبادل توانائی کے ذرائع کی حوصلہ افزائی کرے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی تعاون حاصل کیا جانا چاہیے تاکہ مالی اور تکنیکی مدد سے اس خطے کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچایا جا سکے۔
یہی وقت ہے کہ ہم اس حسین خطے کو صرف ایک سیاحتی مقام نہ سمجھیں، بلکہ ایک حساس ماحولیاتی نظام کے طور پر دیکھیں جس کی بقا ہماری بقا سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اس مسئلے کی سنگینی کو نہ سمجھا تو آنے والے سالوں میں کشمیر کا یہ حسین خطہ شدید ماحولیاتی بحران کا شکار ہو کر ناقابلِ تلافی نقصان اٹھا سکتا ہے۔