وزیراعظم بننا بچپنا تھا، ملالہ
Reading Time: 3 minutesملالہ یوسف زئے نے پاکستان کی سرکاری نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم بننے کی بات انہوں نے بچپن میں کی تھی، اب معلوم ہوا کہ پہلے تعلیم مکمل کرنا بہت ضروری ہے _
اے پی پی کے احسان حقانی کو انٹرویو میں ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ جمہوری عمل کا تسلسل پاکستان کی بڑی کامیابی ہے، ملالہ یوسفزئے قیام امن کے لئے حکومت، فوج اور پوری قوم کی قربانیوں پر شکرگزار ہوں،
سیاستدان آئندہ الیکشن میں تعلیم، صحت اور دوسرے اصل مسائل کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں _
تعلیم اور امن کے لئے بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھانے والی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئے نے پاکستان میں جمہوری حکومت کی دوسری مدت پوری ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امید ہے اگلے وزیراعظم بھی اپنی آئینی مدت پوری کریں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
اے پی پی کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئے نے کہا کہ جمہوری دور میں دوسری حکومت کا مسلسل اپنی مدت پوری کرنامبارکباد کے لائق ہے۔ امیدہے کہ اگلی حکومت بھی اپنی مدت پوری کرے گی اور وزیراعظم پانچ سال کے لئے ہوگا۔ ملالہ یوسفزئے نے کہا کہ سیاستدانوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے اصل مسائل کو اپنے منشور کا حصہ بناکر مینڈیٹ حاصل کریں۔ اصل مسائل تعلیم اور صحت کے ہیں اور سیاستدانوں کو بھی اس طرح کے اصل مسائل پر توجہ دینی چاہئے۔
انہوں نے ملک کے سیاسی رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ اپنے منشور میں تعلیم اور خاص طورپر بچیوں کی تعلیم کو مرکزی نکتہ بنائیں کہ کس طرح وہ پرائمری، سیکنڈری اور اعلیٰ تعلیم کو یقینی بنائیں گے۔
ملالہ یوسفزئے نے کہا کہ پاکستان آنا میرا ایک خواب تھا۔ آج یہ خواب حقیقت بن گیا ہے۔ پاکستان کے حالات بہت بہتر ہوگئے ہیں۔ امن واپس آ گیا ہے۔ اس بڑے مقصد کے لئے پاکستان کے لوگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں، حکومت اور سیکورٹی فورسزنے بہت کام کیا ہے اور میں اس کے لئے حکومت اور افواج پاکستان کا شکریہ اداء کرتی ہوں۔ اگر ان کی مدد نہ ہوتی تو شاید آج میں واپس پاکستان نہ آئی ہوتی ۔
ٓاس سوال کے جواب میں کہ کیا اُن کی واپسی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی جیت ہے؟ ملالہ یوسفزئے نے کہا کہ بالکل، میں جب بھی لوگوں سے کہتی کہ پاکستان جاناچاہئے، تو وہ مجھے کہتے کہ اگر امن ہے تو آپ خود کیوں نہیں جاتی۔ آج میں خود آئی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ سوات، وزیرستان، مردان اور دوسرے علاقوں میں جب دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں تو اس کا اچھا پیغام نہیں جاتا۔ ہم لوگوں کو یہی بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان وہ نہیں ہے جو آپ خبروں میں دیکھتے ہیں۔ میرا یہاں آنا ایک بہت مثبت پیغام ہے کہ پاکستان میں امن ہے۔اب میں لوگوں سے زیادہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکتی ہوں، سوات جائیں، ہنزہ جائیں ،کشمیرجائیں، پاکستان میں جہاں بھی جائیں، لوگ امن چاہتے ہیں۔ یہاں پر دہشت گردی نہیں ہے۔
مستقبل کے لئے اپنی سوچ کے بارے میں ملالہ یوسفزئے نے کہا کہ میں بچپن میں مستقبل کے بارے میں طرح طرح سے سوچتی تھی کہ بڑی ہوکر مکینک بنوں گی، ڈاکٹر بنوں گی وغیرہ۔ جب سوات میں حالات خراب ہوئے تو میں نے سوچا کہ وزیراعظم بنوں گی۔ تاکہ ہر چیز ٹھیک کروں۔ لیکن اب اتنے زیادہ وزرائے اعظم اور سیاستدانوں سے مل چکی ہوں اور ان کو قریب سے دیکھا ہے تو یہ چیزیں اتنی آسان نہیں ہوتیں۔ بہت مشکلات ہوتی ہیں۔ بہت وقت لگتاہے۔اس لئے ابھی میں پوری توجہ تعلیم پر دے رہی ہوں کہ یہ بات یقینی بنائیں کہ ہر بچی کو اعلیٰ تعلیم کا موقع ملے اور وہ جو بھی بننا چاہیں بن سکے۔ اس میں نہ صرف اس بچی کا فائدہ ہے بلکہ پورے معاشرے کا فائدہ ہے۔
ملالہ کی مخالفت میں بات کرنے والوں کو سخت جواب دینے والے اپنے حامیوں کے بارے میں ملالہ نے کہا کہ ایک تو میں خود سوشل میڈیا پر اور خاص طور پر منفی تبصروں کو دیکھتی نہیں۔ اور اگر کوئی میری حمایت میں سخت لب ولہجہ استعمال کرتاہے تو ان سے میں یہی کہوں گی کہ آپ کبھی بھی ایسے الفاظ استعمال نہ کریں جن سے کسی کی دل آزاری ہوسکتی ہو۔