اسلام آباد کی کسی فیملی کورٹ میں کوئی خاتون جج نہیں، جسٹس محسن کیانی
Reading Time: < 1 minuteاسلام آباد ہائیکورٹ کے سینیئر جج جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہے کہ ججز تقرر کے جوڈیشل کمیشن میں پارلیمنٹ نے خواتین کو نمائندگی نہیں دی اور وفاقی دارالحکومت کی کسی فیملی کورٹ میں کوئی خاتون جج نہیں۔
بدھ کو صنفی برابری کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینیئر جج نے کہا کہ آئین میں 26ویں ترمیم کی گئی اور اس کے نتیجے میں جو جوڈیشل کمیشن بنایا گیا اس میں صرف ایک خاتون ہے۔
جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ کیا امر مانع تھا کہ نئے ججز کے تقرر میں بھی خواتین کو برابری کی سطح پر نامزد کیا جاتا۔
’میرا پارلیمان اور عدلیہ سے گلہ ہے کہ آپ صنفی برابری کے خود کچھ نہیں کر رہے جب پالیسی سازی میں خواتین ہوں گی ہی نہیں تو صنفی برابری کی بات کون کرے گا۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ہم صنفی برابری کو بطور پاکستانی سمجھ نہیں سکے، یہ نظریہ ہمارے رویوں میں شامل نہیں ہو سکا۔ قومی سطح پر خواتین کے لیے سٹرکچرز موجود نہیں۔‘
انہوں نے مثال دی کہ ایک خاتون نے میٹرنٹی درخواست دی تو اُن کے خلاف مس کنڈکٹ کی کاروائی شروع ہو جاتی ہے۔
’ہمیں اس کے لیے وہ لینز چاہیے جس سے یہ تفریق ختم ہو سکے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’خواتین ججز کے لیے ہمیں الگ پالیسی میرٹ بنانا ہوگا، پروموشن اور تعیناتیاں کرتے وقت خواتین کا کوٹہ الگ ہونا چاہیے۔ ورکنگ خواتین کو چائلڈ کیئر کی سہولت ملنی چاہیے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس جب بھی ووٹ کا اختیار آیا تو ورکنگ خواتین الاوئنس کے حق میں ووٹ دوں گا، خواتین ججز کو ای کورٹ سسٹم میں بھی سہولت دیں گے۔‘