پاکستان پاکستان24

جسٹس قاضی فائز کے خلاف درخواست خارج

اپریل 5, 2018 3 min

جسٹس قاضی فائز کے خلاف درخواست خارج

Reading Time: 3 minutes

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے بلوچستان ہائی کورٹ میں جج کے طور پر تقرر کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی ہے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ یہ درخواست غیر متعلقہ ہے کیونکہ جسٹس قاضی فائز اب سپریم کورٹ کے جج ہیں ۔

درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے دلائل میں کہا کہ جسٹس فائز کے تقرر کے دو نوٹیفیکیشنز کے خلاف درخواست دی، 5 اگست 2009 کو پہلا نوٹیفیکیشن جسٹس قاضی فائز کو چیف جسٹس لگانے کا ہے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس نوٹیفیکیشن میں کیا خرابی ہے؟ ۔ درخواست گزار نے کہا کہ 2 آئینی شقوں 105 – 196 کی خلاف ورزی کی گئی ہے ۔

پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے درخواست گزار سے کہا کہ آئین کے یہ دونوں آرٹیکلز پڑھیں ۔ درخواست گزار وکیل نے کہا کہ ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ کے فیصلے ہائی کورٹ خالی تھی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب پوری بلوچستان ہائی کورٹ ہی فارغ ہو گئی تو براہ راست چیف جسٹس کا تقرر ہی ہونا تھا ۔ وکیل نے کہا کہ جج کا تقرر آرٹیکل ۱۹۳ کے تحت ہوا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اور کوئی طریقہ ہی نہیں تھا، آرٹیکل ۲۶۰ کو بھی دیکھ لیں ۔

وکیل نے کہا کہ اب جسٹس مقبول باقر سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز سے جونئیر ہیں حالانکہ ان کا تجربہ بہت زیادہ ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آتے وقت جج کی ہائی کورٹ میں سروس کا تجربہ متعلقہ نہیں رہتا، یہ پہلے سے طے شدہ اصول ہے کہ سپریم کورٹ میں جج جس دن سے آئے اس کی سنیارٹی اسی حساب سے ہوگی ۔

درخواست گزار نے کہا کہ قائمقام گورنر نے آخری دن جسٹس قاضی فائز کی تعیناتی کی اور انہوں نے مشاورت بھی نہیں کی ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم یہ تقرر وزیراعلی کی ایڈوائس  کے بغیر ہوا ۔ کیا ثبوت ہے؟ پاکستان ۲۴ کے مطابق وکیل نے کہا کہ نوٹی فیکیشن کی زبان سے ہی واضح ہے، میں نے بیان حلفی دیا ہے، متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کیلئے مہلت دی جائے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانونی نکات بتائیں، 2016 میں آپ کی درخواست کے وقت وہ سپریم کورٹ کے جج بن چکے تھے، یہ ساری باتیں سپریم کورٹ کا جج بننے کے وقت غیرمتعلقہ ہو جاتی ہیں ۔ وکیل نے کہا کہ ان کا بطور سپریم کورٹ جج تقرر ہائی کورٹ جج کی وجہ سے ہوا ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ سپریم کورٹ جج کے تقرر کا کیا معیار یا اہلیت کیا ہے، سپریم کورٹ میں ان کا تقرر الگ اور نئے سرے سے ہوا ۔  وکیل نے کہا کہ گزشتہ تجربہ جج بننے کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے ۔ اس وقت وہ سپریم کورٹ کے جج ہیں اور ان تمام معاملات کے ہوتے ہوئے کیسے میں ان کے سامنے بطور وکیل آزاد حیثیت سے پیش ہوں گا ۔ قائم مقام گورنر جسٹس قاضی فائز کے تقرر کے اہل نہ تھے ۔

وکلا تنظیموں کی جانب سے کے وکیل علی ظفر نے کیس میں فریق بننے کی استدعا کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج ایسی کوئی درخواست ہمارے سامنے نہیں ۔ عدالت سے درخواست دائر کرنے کیلئے مہلت دینے کی استدعا کی گئی تاہم چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ابھی دلائل دیں ۔

پاکستان ۲۴ کے مطابق  وکیل علی ظفر نے دلائل میں درخواست گزار وکیل ریاض حنیف راہی کی درخواست میں اٹھائے گئے نکات کی حمایت کی اور کہا کہ  مجھے سپریم کورٹ بار اور لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے وکیل کیا گیا، سپریم کورٹ بار کا موقف ہے کہ ججز تقرر کا طریقہ عدلیہ آزادی کے لیے اہم ہے، ہمارا موقف ہے اگر یہاں جج کے تقرر کا معاملہ آیا ہے تو قانون پر عمل ہونا چاہیے ۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کئی فیصلوں میں تقرریوں کی شفافیت کا عدالت کہہ چکی ہے۔ اس کیس میں آئین کے مطابق پہلے جج کا تقرر ہونا چاہیے تھا ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا چیف جسٹس کے بغیر جج کا تقرر ہوسکتا ہے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق علی ظفر نے کہا کہ اس وقت قائمقام چیف جسٹس کا تقرر بھی کیا جا سکتا تھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تمام ضروری قوانین کا خیال رکھا گیا تھا، مشاورت مکمل کرکے تعیناتی کی گئی تھی، کیا تعینات کیا گیا شخص اہل نہیں تھا؟

وکیل علی ظفر نے استدعا کی کہ حکومت سے جسٹس قاضی فائز کو بلوچستان ہائی کورٹ کا جج لگانے کا ریکارڈ طلب کیا جائے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک معراج خالد نے بطور قائمقام وزیراعظم اہم فیصلے کئے جو منظور ہوئے، مشاورت تو فون پر بھی ہوسکتی ہے ۔ عدالت نے درخواست خارج کر دی، تفصیلی وجوہات بعد میں لکھی جائیں گی ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے