یہ تو معلوم نہ ہو سکا کہ عمران خان کا مثالی ہالینڈ کا وزیراعظم آج بھی سائیکل پر دفتر جاتا ہے یا نہیں مگر عمران خان وزیراعظم ببنے کے بعد ایک دن بھی سائیکل پر دفتر نہیں گئے بلکہ دس کلومیٹر کا فاصلہ بھی ہیلی کاپٹر پر طے کرتے ہیں اور ناقدین کیلئے ان کے وزیروں کا بے مثال جواب ہے کہ ہیلی کاپٹر کا کرایہ ۵۵ روپے فی کلومیٹر بنتا ہے ۔
اعلان کیا گیا تھا کہ پروٹوکول نہیں لیں گے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم کے کتے کو بھی پروٹوکول دیا جاتا ہے اور سڑکوں پر عام شہریوں کو اسی طرح ٹریفک روک کر ذلیل کیا جاتا ہے ۔
چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤس ایک دن عوام کیلئے کھولے گئے اور تاحال گورنر انہی میں رہائش پذیر ہیں، کسی کو بلڈوز کرکے یونیورسٹی کا سنگ بنیاد نہیں رکھا گیا ۔
اعلان کیا گیا تھا کہ وزیراعظم شروع کے تین ماہ غیر ملکی دورے نہیں کریں گے لیکن پیرنی کے روکنے کے باجود جب لانے والوں نے ہدایت کی کہ کشکول اٹھا کر سعودی عرب اور چین چلے جائیں تاکہ قرضے کے گرداب میں پھنسی معیشت کو سہارا دیا جا سکا تو پھر انکار کی گنجائش نہ بچی ۔ اب تک وزیراعظم چھ غیر ملکی دورے کر چکے ہیں ۔ وزراء بھی معمول کے مطابق غیر ملکی دورے کر رہے ہیں۔
اعلان کیا گیا تھا وزیراعظم کا خصوصی جہاز استعمال نہیں کیا جائے گا لیکن یوٹرن لے کر عمران خان بھی سابق حکمرانوں کی طرح خصوصی جہاز استعمال کر رہے ہیں ۔
انتخابات کے بعد وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر ہر حلقہ کھولنے کو تیار ہیں اس پر حسب روایت یوٹرن لے لیا گیاNA-131 پر اسٹے آرڈر لے گیا۔
وزیراعظم بننے کے بعد اسمبلی میں پہلے خطاب کے دوران خان نے اعلان کیا تھا کہ ہر ماہ دو دفعہ یہاں پر جواب دوں گا، اب معلوم نہیں کہ وہ آئندہ کب اسمبلی کو رونق بخشیں گے ۔
اپوزیشن میں تھے تو عمران خان اور تحریک انصاف والوں کے لئے ایم کیو ایم والے دہشت گرد تھے، آج ان کی وجہ سے وزیراعظم ہیں اور ایم کیو ایم والے ان کے وزیر ۔
ماضی میں شیخ رشید کو چپڑاسی نہ رکھنے والے عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد ان کو ریلوے کا وزیر بنا دیا اور ان سے مشاورت کرتے ہیں ۔ بابر اعوان جب زرداری کے ساتھ تھے تو عمران خان کے لئے چوروں کے ساتھی تھے، پھر مشیر بنا دیے گئے ۔ پرویز الٰہی کے بارے میں عمران خان کے خیالات ڈاکو کے تھے اقتدار میں آنے کے بعد پرویز الٰہی تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ ہیں ۔
مراد سعید وزیر بننے اور عمران خان وزیراعظم ببنے کے بعد دو سو ارب ڈالر تو نہ لاسکے مگر خودکشی بھی نہ کی اور عالمی ساہوکار آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے ۔
پٹرول کی قیمتیں، زلفی بخاری کا مشیر رکھا جانا، یمن جنگ میں سعودی ساتھ دینے پر آمادگی، بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ، ایوان صدر کو استعمال نہ کرنے کا اعلان، پاکستان میں پیدا ہونے والے بنگالی اور افغانوں کو شہریت دینا، یہ وہ سب اعلانات ہیں جن پر یوٹرن لیا گیا اور پھر اس کی فضیلت بیان کی گئی ۔
اگر حکومت کرنے والے مصروف تھے تو واقعی گزشتہ سو دن اپنے کئے گئے اعلانات پر یو ٹرن لینے میں مصروف تھے ۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے اور لانے والوں کی خواہشات کی تکمیل میں مصروف تھے ۔
بظاہر غیر سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ مصروفیت مزید کام دکھائے گی ۔