کالم

چاچا صفدر ہمدانی اور اس کے شاگرد

مارچ 23, 2019 5 min

چاچا صفدر ہمدانی اور اس کے شاگرد

Reading Time: 5 minutes

اعزازسید / سیاسی افق 

وہ ۱۹۹۸ میں برطانیہ میں جلاوطنی کے دوران گمنامی کی موت مرا لیکن ٹھیک ۲۰ سال بعد ۲۰ مارچ ۲۰۱۹ کو اسکی شبہیہ اسلام آباد میں نیب کی عمارت کے سامنے موجود تھی ۔ ۔ ۶۰ کی دہائی میں گارڈن کالج کا طالبعلم تھا۔ وہیں سے اسکا نام صفدر ہمدانی سے چاچا صفدر ہمدانی پڑا جو مرتے دم تک اسکی شناخت رہا۔ گارڈن کالج کے بعد اسکا رخ قائد اعظم یونیورسٹی تھا۔ ابتدا میں اسکا زیادہ تعلق سیاست کی بجائے سماج سے تھا رجحان مگر پیپلزپارٹی کی جانب تھا۔ وہ نئے پرانے طالبعلموں کا "چاچا” تھا۔  جب بھٹو اقتدار آخری دنوں بحرانوں کے بھنور میں پھنسے تو چاچا صفدر ہمدانی کمر باندھ کر بھٹو کے دفاع میں میدان میں آ اترا۔ 

اقتدار کی کشتی بھنور میں ہو تو مسافر کشتی چھوڑ دیتے ہیں ۔ روایت یہی ہے مگر یہ روایتوں کا باغی شخص تھا۔ ملک میں جنرل ضیا الحق نےمارشل لا لگا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تو صفدرہمدانی  بھٹو خاندان کے قریب ہوگیا۔ کتابوں اور انقلاب کے نعرے سے مسحورآدرشوں کا پیچھا کرتا یہ نوجوان جلد ہی اپنی متحرک شخصیت کے باعث پیپلزپارٹی کے برے دنوں میں ایک اچھی شناخت بن گیا۔ ضیا الحق سے بدلا لینے کے لیے مرتضی۱ بھٹو نے الذوالفقار نامی تنظیم بنائی جسکا مقصد ہر قانونی و غیر قانونی طریقے سے بھٹو کی رہائی تھا۔ اس تنظیم سے وابستہ کراچی یونیورسٹی کے ایک طالبعلم ٹیپو نے کراچی سے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کیا اور اسے افغانستان لے گیا۔ اس واقعے کے بعد جنرل ضیا کی حکومت نے پاکستان میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی پکڑدھکڑ شروع کی تو نوجوان صفدر ہمدانی چپکے سے افغانستان چلا گیا۔ وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد اس نے برطانیہ کا رخ کیا اورپھر لندن کو اپنا مسکن بنا لیا۔

لندن میں ینگ مین کرسچِین ہاسٹل چاچا صفدر ہمدانی کی قیام گاہ بنا ۔ ان دنوں نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو بھی برطانیہ پہنچ چکی تھیں یہاں ان کی چاچا صفدر ہمدانی سے قربت ذاتی دوستی اور تعلق میں بدل گئی۔ لندن میں پاکستان سے سیاسی بنیادوں پر نکلے اکثر کارکن چاچا صفدر ہمدانی کے مہمان ہوتے ۔ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو چاچا صفدر ان سے دور ہوگئے۔ ان کے خیال میں بے نظیر نے "کمپرومائز” کرلیا تھا۔ چاچا صفدر جلاوطن ہوکر لندن گئے تھے مگر اب انکا دل پاکستان سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

یہ ۱۹۹۶ کی بات ہے کہ سابق سپیکر قومی اسمبلی حاجی نواز کھوکھر نے اپنے نوجوان کھلنڈرے بیٹے مصطفی۱ کو برطانیہ جانے کا حکم دیا اور بتایا کہ اب تعلیم کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوگا۔ مصطفی۱ کو بتایا گیا کہ ائیرپورٹ پر اسے ایک شخص ملے گا جو اسکی رہائش اور داخلے کے تمام انتظامات کرئے گا۔ نوجوان لڑکا لندن اترا تو ائیرپورٹ پر ایک ادھیڑ عمر شخص اسکا استقبال کررہاتھا۔ یہ شخص چاچا صفدر تھا۔ وہی چاچا صفدر جو طالبعلم سیاست سے ، روپوشی ، جلاوطنی اور جلاوطنی میں رہ کر سیاسی تحریکیں چلانے کے فن میں یکتا تھا۔ چا چا صفدر نے نوجوان مصطفی۱کی آو بھگت کی اور سیاسی تربیت کے آغاز میں ” مارکسزم سے بھٹو تک ” کتاب ہاتھ میں تھما دی ۔ نوجوان طالبعلم پتہ نہیں کیا ہوتا چاچا صفدر نے اسے مصطفیٰ نواز کھوکھر بنا دیا وہ دو سال تک چاچا صفدر ہمدانی کا مہمان رہا اور ایک مکمل طور منفرد انسان بن گیا۔۱۹۹۸ میں چاچا صفدر چل بسا۔ وہ مرا تو بے نظیر بھٹو تعزیت کے لیے راولپنڈی اس کے گھر بھی گئیں۔

وقت کی دھول نے چاچا صفدر کے نام پر مٹی ڈال دی ، لوگ اسے بھول گئے۔ اسکا نام لیوا کوئی نہ تھا۔ شادی وادی کی نہیں تھی کہ اولاد ہی والد کا نام زندہ رکھتی۔ سنا ہے اس کے خاندان کے افراد راولپنڈی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر اسکا شاگرد مصطفیٰ نواز کھوکھر پیپلزپارٹی کا سینیٹر بن گیا۔ 

۲۰ مارچ کو میں بھی نیب کے پرانے ہیڈکوارٹرز کی عمارت کے سامنے موجود تھا۔ وہاں پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینٹ میں انسانی حقوق کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مصطفی۱ نواز پارٹی کارکنوں کے ہمراہ آئے۔ یہ تمام لوگ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی نیب پیشی کے موقع پر ان کا استقبال کرنے پہنچے تھے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے مختلف علاقوں سے پیپلزپارٹی کےنوجوان ، ادھیڑ عمر اور عمر رسیدہ جیالے اکٹھے ہورہے تھے۔ یہ تمام لوگ نیب دروازے پر اکٹھے ہوئے تو اچانک اسلام آباد انتظامیہ کے ایک افسر نے ان کارکنوں کی گرفتاریاور لاٹھی چارج کا حکم دے دیا۔ دھکم پیل اور گرفتاریاں شروع ہوئی تو میں نے دیکھا کہ عام طور پر ٹھنڈے مزاج کا نوجوان سینیٹر مصطفی۱ نواز شدید غصے میں آگیا ۔ اسے بتایا گیا تھا کہ مختلف ناکوں پر اسکی جماعت کے کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے ۔ اس کی موجودگی میں گرفتاریاں شروع ہوئیں تو وہ کارکنوں کے ساتھ جاکھڑا ہوا۔ اس نے آواز دی "احتجاج ہمارا حق ہے "۔ پھر اس نے دیکھا کہ ایک پولیس اہلکار ایک پارٹی ورکر کو گھسیٹ کر لے جارہا ہے ۔ مصطفی۱ نواز اس پولیس آفیسر کی طرف بڑھا اور دھکا دیتے ہوئے اپنے پارٹی کارکن کو چھڑایا۔ یہ اقدام کوئی احسن قدم نہیں تھا۔ مگر اس اقدام نے پارٹی ورکروں کو چارج کردیا ۔ ایسے کہ جیسے انہیں کرنٹ لگ گیا ہو۔ 

انتظامیہ نے حالات کو سمجھتے ہوِئے مزید گرفتاریوں کا سلسلہ روکا تو تھوڑی دیر میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی گاڑیاں نیب عمارت کے اندر داخل ہوئیں۔ جب تک وہ باہر نہیں نکلے نیب عمارت کے باہر نعرے بازی ہوتی رہی۔  پیپلز پارٹی کے کارکن کسی کو برداشت ہی نہیں کررہے تھے ایسے ہی جذبات میں جیو نیوز کے سینئر کیمرہ مین شیراز گردیزی کو بھی تشدد کا نشانہ بنا دیا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پیپلز پارٹی کے کارکن آخری بار سال ۲۰۰۷ میں افتخار چوہدری کی برطرفی کے خلاف اور پھر بے نظیر بھٹو کے لیے گھروں سے نکلے تھے۔ اس کے بعدتو آج تک پیپلز پارٹی کا کارکن سو گیا ہو جیسے ۔۔۔ عمارت کے باہر حیران کن طور پر پارٹی کارکن یااللہ یارسول بے نظیر کا بیٹا بے قصور کے نعرے لگارہے تھے۔ 

نیب کی تحقیقات تواپنی جگہ چل رہی ہیں ۔ ایک طاقتور شخصیت کا اپنے اکثر ملاقاتیوں سے کہنا ہے کہ آصف زرداری کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا، زرداری کی گرفتاری پکی ہے ۔ مگر ۲۰مارچ کو نیب عمارت کے باہر جسطرح مصطفی نواز اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے پیپلز پارٹی کے دم توڑتے جسم میں جان ڈالی ۔ ہم سمجھ گئے کہ زرداری کی گرفتاری بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کی مضبوطی کی صورت نکلے گی۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ اگر بلاول بھی گرفتارکر لیےگئے  تو آصفہ بھٹو بھی میدان سیاست میں عوام کے سامنے ہوگی۔

آصف زرداری اور بلاول وآپس روانہ ہوئے تو بلاول بھٹو نادرا چوک میں اپنی گاڑی کے چھت پر نکل آئے اور خطاب شروع کردیا۔ ہم سب حیران تھے کے ایک نوجوان جس کی ماں ایسے ہی کارکنوں کو دیکھ کر خطاب کے لیے نکلی اور ماردی گئی وہ کس طرح بلاخوف گاڑی سے سرعام نکل کر خطاب کررہا ہے۔  

اس سب کے بعد میں دفتر آیا تو یہاں جیو کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد ، معروف اینکرو صحافی حامد میر ، جیو کے ایگزیکٹو پروڈیوسر اور باکمال شخصیت مدثر سعید  ، پیپلزپارٹی کی کوریج کرنے والے رپورٹر وقارستی سب اکٹھے ہوگئے۔ پیشی کے ماحول اور اس حوالے سے مختلف پہلووں پر گپ شپ ہونے لگی تو باتوں باتوں میں مصطفی نواز کا ذکر آگیا ۔ سچ یہ ہے کہ مصطفیٰ کہ چچا تاجی کھوکھر کا نام جڑواں شہروں میں اچھے حوالوں سے نہیں لیا جاتا مگر مصطفیٰ نواز واقعی ایک منفرد شخص ہے۔ ہماری گفتگو جاری تھی کہ حامد میر بولے، جوبھی ہو آج مصطفی نواز نے ثابت کیا ہے کہ وہ چاچا صفدر ہمدانی کا اصل شاگرد ہے ۔ 

سچ یہ ہے کہ نیب کی پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے اور کارکنوں کو تحریک دینے میں مصطفی نواز نے بڑا کام کیا ہے ۔ اس پر قانون ہاتھ میں لینے کا مقدمہ درج ہوچکا ۔ فیصلہ عدالتیں کریں گی ۔ مگر اس نوجوان نے اپنے استاد صفدر ہمدانی کی شاگردی کا حق ادا کیا ہے ۔ 

پیپلزپارٹی کے ۲۰مارچ کے شو کا موازنہ اگر نوازشریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی اور مسلم لیگ ن کی احتساب عدالتوں میں حاضری سے لگایا جائے تو فرق صاف پتہ چلتا ہے ۔ اس پر مختلف افراد اپنی آرا دے چکے۔  مگر میرے خیال میں دونوں کا فرق دونوں کی قیادتوں کے رویوں کے  ساتھ ساتھ چاچا صفدر ہمدانی اور اس کے شاگردوں پر بھی ہے ۔ پیپلزپارٹی کے پاس ایسے کئی چاچے اور ان کے شاگرد موجود ہیں مگر ن لیگ کے پاس ایسا کچھ نہیں۔ 

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو اپنے کارکنوں کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنا ہوگا تاکہ اس ملک میں جمہوری رویوں کی مستقل آبیاری کے لیے چاچا صفدر ہمدانی اور ان کے شاگرد پیدا ہوتے رہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے