عمران خان کو نواز، زرداری کی طرح صبر کرنا چاہیے
Reading Time: 3 minutesاس بار پاکستان تین ہفتے کے لیے جانا ہوا، بہت ہی مصروف وقت گذرا، پاکستانی معاشرے کا ایک بار پھر مشاہدہ کیا اور تقابل بھی اپنے آپ ہی ہونے لگا۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ناچیز متعدد بار اپنی یہ ناقص رائے دے چکا ہے کہ پاکستان کے تقریبا تمام مسائل کی ستر فیصد وجہ بالادست محکمہ ہے۔ اور یہ بھی کہ اصل سٹیک ہولڈر سرکاری ملازم نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر وہ بندوق کے زور پر قبضہ کر بھی لے اور اپنی نوکری دس سال تک بھی لے جائے بالاخر اسے کرسی چھوڑنی ہوتی ہے اور کہانی میں اس کا کردار مر جاتا ہے۔
سیاست کی کہانی میں سیاستدان کا کردار آسانی سے نہیں مرتا، اس کا سٹیک معاشرے سے کبھی ختم نہیں ہوتا۔
میرا یہ بھی ماننا ہے کہ سیاستدانوں کو جتنا بھی موقع ملا اس میں محکمے نے انہیں حالت اضطرار میں رکھا، اس لیے ان سے حالت اضطرار میں بھی صرف حلال ہی کھانے کی توقع رکھنا بذات خود غیر حقیقت پسندی ہے۔
الیکشن 2024 سے پہلے اپنا اندازہ شئیر کیا تھا کہ الیکشن ڈے پر خان کو اتنا زیادہ ووٹ پڑے گا کہ جس کا اندازہ پٹواریوں، جیالوں یا ان کے موجودہ ابو محکمے کو بالکل بھی نہیں ہے، جبکہ عین اس وقت ایک فاضل دوست نون لیگ کو کاٹھ کے سروے کے گھوڑے پر بٹھا کر ٹکا ٹک ٹکا ٹک کی آوازیں مونہہ اور بغل سے نکال رہے تھے اور ایک فاضل دوست بلاول کی جیکٹ میں اتنا بارود بھر چکے تھے کہ جس کے پھٹنے سے بلاول جنت سے تیس کلومیڑ آگے نکلتا نظر آتا تھا۔
ملک کے نکمے ترین اور ناکام ترین وزیرآعظم رہنے کے باوجود خان عوام کے دل میں گھر کر چکا تھا، بیک وقت ایک بہادر آدمی،ایک مظلوم آدمی، ایک ایسا ایماندار آدمی جس کی بیوی بھی اسے دھوکہ دیتی ہے، خان ایک ایسے ٹرمینیٹر اور سپر ہیرو کے طور پر ایمرج ہو چکا تھا جو اکیلا ہی دنیا کے سب ولنوں کو مار کر دیسی مرغی کی یخنی پی کر بکرے کی ران پر محبت سے ہاتھ پھیرتا نظر آ رہا تھا۔
میری فیکٹریوں میں ورکرز کے موٹرسائیکلوں کی نمبر پلیٹ پر غلام قوم کے لوگوں نے ہم کوئی غلام ہیں لکھ رکھا تھا، وہ کھانے کے وقفے میں ٹک ٹاک پر خوبرو خواتین کے کیلویج کے ساتھ خان کی تقاریر کے ٹکڑے دیکھ کر نہایت اشتہا انگیز انداز میں روٹی کے ٹکڑے توڑتے نظر آتے تھے۔
اب الیکشن کو ایک سال گذر چکا تھا، سیون اپ کی بوتل میں کالا نمک ڈال ڈال کر اسے برانگیختہ رکھنے کا عمل بار بار دوہرایا جا چکا تھا لیکن انگریزی محاورہ کہ ہر رات سہاگ رات نہیں ہوتی وقوع پذیر ہوتا نظر آیا۔
عوام خان صاحب کی ہر وقت حالت جنگ میں رہنے کی خواہش کی وجہ سے حالت تنگ میں نظر آ رہے تھے۔
یاد رہے کہ انسانوں کی اکثریت جھگڑالو طبعیت کی حامل نہیں ہوتی اور بالاخر ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ معاملات سلجھیں اور وہ شام کو اہلیہ کے ساتھ بیٹھ کر تھوڑی فرصت بھی میری جاں بانہوں کو دیجیے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
زمینی حقائق سے دور عمران خان کو جیل میں یہ پیغام پہنچنا چاہیے کہ جو لوگ اپنی امیوں کی خان صاحب سے شادی کروانے کے خواہشمند تھے ان کی امیاں آہستہ آہستہ فوت ہو رہی ہیں۔
خان صاحب ریلیونٹ رہنے کے لیے بجھتی ہوئی آگ میں جس پھونکنی سے اپنے پھپھڑوں کی ہوا پھونک رہے ہیں اس میں چھید ہیں اور دھواں زیادہ نکلنے سے ان کی آنکھوں میں جو آنسو آ رہے ہیں ان میں سے کچھ اصلی بھی ہیں۔
اپنی توانائیوں کو بچا کر بہتر ہوگا کہ وہ بارات میں لٹائے گئے نوٹوں کو لوٹنے پر نواز اور زرداری کی لڑائی دیکھنے کے لیے پاپ کارن خرید رکھیں اور پھر انتظار کریں کہ جس نے نوٹوں کی گڈی فضا میں اڑائی ہے وہ نواز زرداری کو ایک ایک جھانپڑ رسید کر کے کہے تم سے تو میرا عمران صابر تھا جو پیمپر بھر کر بھی چار چار گھنٹے یہ نہیں کہا کرتا تھا
امی دھو دو۔